حرمت قرآن پر جان قربان !
اہل اسلام دوسرے الہامی ادیان کی کتب، پیغمبروں اور ان کے احکامات پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اس لئے ان کے بارے میں خلاف ادب کوئی بات کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں، لیکن اگر کوئی دوسرا اِن کے نبی ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرے یا قرآن پاک اور اسلامی شعائر کی توہین کرے تو اسے برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعات اور مجرموں کے خلاف متعلقہ حکومتوں کا کوئی کارروائی نہ کرنا ،پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے،اس صورتحال میں حرمت قرآن کے منافی کسی بھی اطلاع پر چاہے
افواہ ہی کیوں نہ ہو، مسلمانوں کا مشتعل ہونا قابل فہم ہے،لیکن اس معاملے میں ہمارے دین نے جو حدود وقیود متعین کی ہیں، ان کی پابندی بھی ہر مسلمان پر لازم ہے۔اس میں شک نہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور اسلامیںغیرمسلموں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ، لیکن غیر مسلموں کا بھی اخلاقی فرض بنتا ہے کہ دین اسلام کی بے حرمتی سے گریز کریں ، لیکن اس کے برعکس غیر مسلم بار بار دین اسلام کی بے حرمتی کے مرتکب ہورہے ہیں ،اُمت مسلمہ بڑی حدتک صبر وتحمل کا مظاہرہ کررہی ہے
،لیکن بے حرمتی کے واقعات کے تسلسل کے باعث سارا صبرو تحمل لبریز ہونے لگا ہے ، جڑانوالہ میں قرآن کی بے حرمتی کے ردعمل میں ہجوم کی جانب سے عیسائی گرجا گھروں کانذر آتش ہونا بھی اسی کا شا خسانہ ہے ، تاہم ریاست پا کستان کاقانون کسی بھی ہجوم کو خود جج و جلاد بننے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
یہ واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے کہ جب سویڈن میں عراق سے رکھنے والے دو معلون مسلسل قران پاک کی بے حر متی کررہے ہیں ، اس کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے ،لیکن اس موقع پر اچانک جڑانوالہ جیسے چھوٹے شہر میں ایسا واقعہ ہونا کسی سازش کا ہی حصہ لگتا ہے ،اس واقعے میں جہاں بیرونی ہاتھ دکھائی دیتا ہے
وہیں اندر سے بھی سہولت کاری کی گئی ہے ،ہماری صفوں میں موجود انتہا پسندعناصر نے معاملہ سیکورٹی اداروں کے سامنے لانے کے بجائے خود مساجد سے اعلان کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا اور ہجوم لے کر اقیتی آبادی پر چڑھ دوڑے ،حالانکہ اقلیتی آبادی کو علم بھی نہیں ہو گا کہ ان کے دو افراد نے ایسی کوئی حرکت کی ہے ۔
اس واقعے سے جڑے سارے ہی عوامل کسی گھنائونی سازش کی جانب اشارہ کررہے ہیں اور بعض اطلاعات بھی تصدیق کررہی ہیں کہ اس میں ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ ہو سکتا ہے ،جو کہ پا کستان کو بد نام کر نے کا کائی موقع بھی ضائع نہیں کرتا ہے ،اس حوالے سے بھارتی خفیہ ایجنسی’’ را ‘‘متحرک رہتی ہے
،لیکن ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں ؟ہماری پولیس اور انتظامیہ ہی اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے،ایک طرف ملک پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف وہی پولیس سرکاری امن وامان قائم رکھنے بالخصوص اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور جان و مال کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے،نومئی پر سیکورٹی فورس دکھائی دی نہ ہی جڑانوالہ واقعہ پر انتظامیہ ،پولیس کا کوئی کردار رہا ہے ،اب پو لیس نے توہین قرآن میں ملوث دو ملزمان اور مسیحی آبادی پر حملہ کر نے والے ایک سو اٹھائیس افراد پکڑ لیے ہیں
تو ان لو گوں کو بھی گر فتار کر نا چاہئے کہ جنہوں نے مساجد سے اعلان کرکے لو گوں کو اشتعال دلا یا کہ مسلمان حرمت قرآن پر جان بھی دیے سکتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ مسلمان حرمت قرآن پر جان بھی دیے سکتا ہے ،لیکن ایک مسلمان کو یاد رکھنا چاہئے کہ قران پاک میں ہی رب العزت کا واضح فر مان ہے کہاگر کوئی تمہارے پاس کوئی ایسی کبر لے کر آئے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ہی کسی کو نقصان پہنچا بیٹھو، کسی بے گناہ کو نقصان پہچانے پر رب کریم معاف نہیں کرے گا
،اس ملک میں توہین قرآن پر سزائے موت کا قانون موجود ہے تو اس کے بعد قانون ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے ،اُمید ہے کہ گر فتار ملزمان سے تفتیش میں سب کچھ سامنے آجائے گا ،تاہم اس سے آگے بڑھتے ہوئے حکومت کوایسے اقدامات کر نا ہوں گے کہ بار بار بے حرمتی اور گروہی حملے کے واقعات کو روکا جاسکے
، اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی دبائو میں آئے بغیر بلا امتیاز واقعہ میں ملوث اور اشتعال دلانے والوںکو نشان عبرت بنایا جائے ، بصورت دیگر سازشی عناصر کی جانب سے بے حرمتی روکے گی نہ ہی حرمت پر جان دینے والے جانثار پیچھے ہٹ پائیں گے ،جبکہ اس ملک کے ساتھ خطے کا امن بھی دائو پر ہی لگا رہے گا۔