مہنگائی کے مارے نیم پاگل عوام ! 60

بے اختیاری ہے کہ مجبوری !

بے اختیاری ہے کہ مجبوری !

ملک کی سیاست میں آئے روز کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہے ، ایک غیر سیاسی نگران حکومت کے بر سر اقتدار ہوتے توقع کی جارہی تھی کہ سیاست میں کوئی ہلچل آئے گی نہ ہی اعلی عہدیداروں کے درمیان کوئی اختلاف سامنے آئے گا، لیکن گزشتہ روزصدر مملکت کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ایسا بیان سامنے آیا ہے کہ جس نے ملک بھر میں ایک بھو نچال بر پا کر دیا ہے ، صدر پاکستان نے اپنے ٹویٹ میں جہاں دو ترمیمی ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی قسم کھائی ہے ،وہیں آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کے ایکٹ بننے سے جن لوگوں کو بھگتنا پڑے گا، اْن سے معافی بھی مانگ رہے ہیں،

یہ بے اختیاری کا رونہ ہے کہ مجبوری کا اظہار ہے ،لیکن اس بیان کے بعدایک ایسا پنڈورا بکس کُُھل گیاہے ،جو کہ وقت قریب بند ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔اس ملک کے باسیوں کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہوتا جارہا ہے ، ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو دوسرے دریا کا سامنا ہوتا ہے، ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران دامن سے لپٹ چکا ہو تا ہے،یہ معلوم نہیں سب اتفاق ہے یا اسے اہتمام قرار دیا جائیے کہ اب صدر محترم کے ٹویٹ سے جو بحران پیدا ہوا ہے ، اس کی سنگینی خاصی پریشان کن ہے،

اس کی حقائق تو شاید فوری طور پر سامنے نہ آسکیں ،لیکن اس کے اثرات دیر پا رہیں گے ، اس آئینی و قانونی مسئلے پر ماہرین قانون کی آراء کے ساتھ وزارت قانون کا موقف بھی سامنے آیا ہے ،وزارت قانون کا کہنا ہے کہ آر ٹیکل 75کے مطابق کوئی بھی بل منطوری کیلئے صدر کو بھیجا جاتا ہے ،اس کیلئے صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں ،منطوری دیں یا مخصوص مشاہدات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں ،موجودہ کیس میں صدر نے آئینی ضروریات پوری نہیں کی ہیں ،انہوں نے جان بوجھ کر تاخیر کرتے ہوئے

غیر آئینی اقدام کیا اور اب اپنے ہی عہدیداروں کو بدنام کررہے ہیں ،انہیں اپنے اعمال کی ذمہ داری خود ہی لینی چاہئے،جبکہ ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ نگراں وزیر قانون نے غلط تشریح کررہے ہیں، بل ابھی قانون ہی نہیں بنا ہے، ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کاکہنا ہے کہ نگران وزراء کی پریس کانفرنس سے واضح ہوگیا ہے کہ بل واپس ہی نہیں بھیجے گئے توکیسے پتہ چلے گا کہ صدر نے بل کی منظوری دے دی تھی ۔
صد ر نے منظوری دی یا نہیں دی ہے ،لیکن نگران حکومت نے فیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء کی منظوری کا آرڈنس جاری کردیا ہے ،اس کے بعد دونوں بل باقاعدہ قانون کی حیثیت سے نافذ ہوگئے ہیں ،بلکہ اس کے تحت سائفر کے حوالے سے سرکاری رازوں کے افشاء کے الزام میں تحریک انصاف کے رہنماشاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو گرفتار بھی لر لیا گیا ہے

،یہ گزشتہ روز پیش آنے والے ایسے واقعات ہیں، جو کہ نہ صرف ملک کے سیاسی ماحول کو متاثر کریں گے بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان میں آزادی اظہار کے حوالے سے موضوع گفتگو بھی بنیں گے، لیکن اس سے ہمارے سٹیک ہولڈر بے پروہ دکھائی دیتے ہیں ،ایک طرف ٹویٹ ہورہے ہیں تو دوسری جانب گرفتاریاں کی جارہی ہیں ، دنیا بھر میں ملک کی ہونے والی جگ ہنسائی کا کوئی احساس ہی نہیں کررہا ہے

،ہر کوئی اپنے زاتی مفاد میں سب کچھ ہی دائو پر لگا رہا ہے ۔اتحادی حکومت نے جاتے جاتے پارلیمان سے درجنوں ایسے بل منظور کروائے کہ جن کی تاریخ میںکوئی مثال ہی نہیں ملتی ہے ،دوسری جانب صدر مملکت اپنے تائیں ان کے سامنے روکاوٹ ضرور بنتے رہے ہیں ،لیکن آفیشل سیکرٹ ایکٹ ا ور آرمی ترمیمی بل کی منظوری روک نہیں پائے تواپنی بے بسی کا اظہار ایک ٹویٹ کے ذریعے کرتے ہوئی معافی مانگ لی ، عوام حیران و پر یشان ہیں کہ ایک سب سے بڑے عہدے پر بیٹھا شخص بھی اتنا بے بس ہو سکتا ہے

کہ اپنے عملے کی حکم عدولی پر کاروائی کرنے کے بجائے ٹویٹ کے ذریعے معافی تلافی کرتاپھرے ،اگر انھوں نے واقعی دستخط نہیں کئے ہیں تو انہیں اپنے عملے کیخلاف دستخط forceکرنے کی FIRکٹوانی چاہیے، اس عملے کو معطل کروانا چاہیے اورواضح طور پر کہنا چاہیے کہ ان کے دستخط کے بغیر قانون کیسے بن سکتا ہے؟
یہ صدر مملکت کے شایان شان نہیں ہے کہ ایسی کمزور بیانات کا سہارا لیا جائے ،وہ جب تک ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتے ہیں، اس معاملے پر پوری تفصیل قوم کے سامنے عام کر نی چاہئے،تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے ، یہ کوئی عام بات نہیں، بہت ہی سنگین معاملہ ہے اور اس میں صدر صاحب جب تک دستاویزی ثبوت کے ساتھ بات نہیں کریں گے،ان کی بات پر کوئی یقین کرے گا نہ ہی یہ معاملہ سلجھ پائے گا

،یہ معاملہ بھی عدالت میں چلا گیا ہے ،لیکن اہم عہدوں کے ساتھ اداروں کی بے بسی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اگر چاروں اطرف اتنی بے بسی ہے تو پھرعوام کی بے بسی کا عالم کیا ہوگا؟کیا انہیں غیبی امداد کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے، کیا وہ آسمان سے خلائی مخلوق کے اُتر نے کا انتظار کریں یا پھر مایوسی کے عالم میں ایسے راستے کا انتخاب کریں کہ جس کے بارے میں سوچ کر ہی دل غم سے بوجھل ہو جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں