اب نہیں تو پھر کبھی نہیں !
ہماری سیاست میں سیاست سے زیادہ دشمنی کا پہلو نمایاں ہوتا جارہا ہے ،اس کے باعث ہی قومی سیاست کا منظر نامہ مسائل کے حل کی بجائے مزید مسائل میں الجھا رہا ہے ،اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جاسکتی ،اس میںسیاسی و ادارہ جاتی سطح پرسب پرہی شریک کار ہیں،کیونکہ اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے ،یہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہورہا ہے ،بلکہ اس میںہر فریق نے کم یا زیادہ اپنا حصہ ڈالا ہے
،لیکن کوئی ماننے کو تیار ہے نہ ہی کوئی ذمہ داری قبول کر رہا ہے ، یہاںسارے ایک دوسرے کو ہی قصوار ٹہرانے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ ہماری سیاست کا المیہ رہاہے کہ یہاںسب ہی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں،اس سارے عمل میں سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی راستے کمزور ہوتے جارہے ہیں اور ایسا لگنے لگا ہے کہ قومی سیاست میں جمہوری مضبوطی کا عمل بہت پیچھے کہیں رہ گیا ہے، کیو نکہ اہل سیاست آمرانہ سوچ کی سہولت کاری کر نے لگے ہیں ، اس کے نتائج ماضی میں بہتر نکلے نہ ہی اس کے اثرات حال یا مستقبل کی سیاست میں بہتر نکل سکیں گے،اس کے باوجود طاقتور حلقوں کی بضد ہیں کہ آزمائے ناکام فارمولے کو ہی کامیاب بناکر چھوڑیں گے ۔
ہمیں قومی مفاد میں ضد و انا سے باہر نکلنا ہو گا ، ہمیں آئینی ، سیاسی ، قانونی اور جمہوری راستے کو اپنی منزل بناناہو گا، لیکن موجودہ سنگین حالات میں سب کچھ کیسے ممکن گا کہ محاذآرائی اور ٹکرائوکی سیاست سے باہر نکل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے،اس کیلئے سب کو ہی اپنی منفی سوچ کو بدلنا ہو گا،مفاہمت محض اس بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے کہ مخالف کمزور ہوگئے ہیں یا مفاہمت کے ایجنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں، حقیقی مفاہمت کی بنیادی شرط ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی سیاسی طاقت یا سیاسی قبول کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں
کہ اس حقیقت کو تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکیں گے،اس بر عکس مائنس کی تکو دو کرنے سے کبھی کو ئی مائنس ہوا نہ ہی مائنس کیا جاسکے گا۔اس وقت ملکی سیاست میں جو محاذ آرائی کا ماحول ہے، اس میں سے ماینس پلس کے بجائے مفاہمت یا مذاکرات سے ہی باہر نکلا جاسکتا ہے،لیکن اس بلی کے گلے میں کون اور کیسے گھنٹی باندھے گا ، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا سیاسی جماعتیں چاہے ان کا تعلق سابقہ حکمران جماعتوں سے ہو یا ان میں آج کی نگران حکومت کے لوگ شامل ہوں
،یہ سب مل بیٹھ کر سیاسی راستہ کی تلاش میں سنجیدہ ہیں،بالخصوص تین بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ( ن )اور پی ٹی آئی شامل ہیں،کیا اس بد اعتمادی کے ماحول میں سب اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں ؟اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں کس جماعت نے کیا کیا ہے، کیااس سے آگے بڑھ کر مستقبل کے راستے کی تلاش میں کوئی نیا لائحہ عمل بناسکتے ہیں ؟ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے ،لیکن اس کیلئے طاقتور حلقوں کی رضا مندی کے ساتھ معاونت بھی در کا ہو گی ۔
اس میںکوئی دورائے نہیں ہے کہ اس وقت درپیش بحرانوں سے نکلنے کے لیے ایک بڑے سیاسی ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے، اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر سیاسی ، معاشی ، انتظامی اور قانونی بحران سے نمٹ کر کچھ ایسے نکات پر متفق ہوسکیں کہ جو سب کو آگے بڑھنے کا راستہ دے ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سب ہی اپنی موجودہ سخت گیر پوزیشن سے باہر نکلیں اور سب ہی اپنی جگہ سے ایک یا دو قدم پیچھے ہٹیں ،یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب سب ہی ذاتی معاملات کے مقابلے میں ریاستی مفاد کو اولین ترجیح دیں گے
،کیونکہ جب سب ہی خود کو ریاستی اور معاشرتی مفاد سے نیچے رکھ کر دیکھیں گے تو ہی ریاست کے مفادات کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں،لیکن اگراب بھی ان سنگین حالات میں مفاہمت ، بات چیت اور مکالمہ کا راستہ تلاش کرکے آگے بڑھنے سے گریز کیا گیا تو اس کے نتائج مزید انتشار و ٹکرائوکی سیاست کے نتیجے میں ہی سامنے آئیں گے،اس کی ایک بار پھر ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں آئے گی ،
بلکہ ان حالات کے سب ہی ذمے دار ہونگے، اب گیند اہل سیاست کی کورٹ میں ہے کہ مفاہمت یا ٹکرائومیں سے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں، اگر اب نہیں تو پھر کبھی نہیں،اہل سیاست کو فیصلہ کرنا ہو گا، اگر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا تو عوام ساتھ دیں گے ، ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا تو عوام کبھی معاف نہیں کریں گے ۔