الیکشن نظر نہیں آرہے !
ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے کسی کو کچھ پتہ نہیں ،یہ معاملہ سلجھنے کے بجائے اُلجھتا ہی جارہا ہے ، عام انتخابات کی تاریخ کون دیے گا ،اس پر صدرمملکت اور الیکشن کمیشن کے مابین ٹھن گئی ہے ،اس پرکچھ ماہر قانون کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ کمیشن صدر سے مشاورت کا پابند نہیں ،اگرصدر نے کوئی تاریخ دے بھی دی
توالیکشن کمیشن اسے مسترد کرسکتا ہے، کیونکہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابی شیڈول کا اعلان صرف الیکشن کمیشن کا ہی اختیار ہے، اس قبل صدر نے پنجاب اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل پر بھی انتخابات کیلئے ازخودچار اپریل کی تاریخ مقرر کردی تھی، لیکن اس پر عمل ہی نہیں ہوا،اگرقومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے از خود کوئی تاریخ مقرر کردی جاتی ہے تو کیا ان کے حکم کی تعمیل ہوگی؟ اس سوال کا جواب سردست کسی کے پاس نہیں، یہ فیصلہ صرف سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے، لیکن ماضی میں عدالتی فیصلوںپر بھی عمل در آمد نہیں کیا گیا، اس لئے موجودہ سیاسی منظر نامے اور حالات و واقعات کے پیش نظر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے؟
اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو گئی اور ساری اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، جمہوریت، پارلیمانی نظام اور آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ نوئے دن میں انتخابات کرائے جائیں، وفاقی حکومت کے علم میں پہلے ہی تھا کہ مردم شماری کی بروقت تکمیل سے اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر بروقت انتخابات کرائے جا سکیں گے، لیکن بدنیتی اور سیاسی انجیئنرنگ کے تحت مردم شماری کے نتائج کی نوٹیفکیشن کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، تاکہ آئینی ابہام پیدا کر کے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا جا سکے،
آئین کی روح یہ ہے کہ جمہوریت، عوام کے انتخابی حق کو اوّلیت ملنی چاہیے،اس لیے انتخابات کے برقوت انعقادکو متنازع نہ بنایا جائے، آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن کسی دبائو میں چوبیس کروڑ عوام کو جمہوری حق سے محروم نہ کرے،لیکن الیکشن کمیشن آئینی آڑ میںعوام کو حق رائے دہی سے محروم کر نے پر ہی تلا نظر آتا ہے۔یہ ایک انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ آئین میں سب کچھ صاف ہوتے ہوئے بھی ابہام پایا جارہاہے ،اس حوالے سے دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے آئین میں تمام تر سوالات کے واضح جواب موجود ہیں اور وہاں پر آئین و قانونی تقاضوں پر پوری طرح عمل بھی ہوتا ہے،
امریکی آئین میں تو یہاں تک بتایا گیاہے کہ ہر چار سال بعد صدر مملکت کا انتخاب کس روز اور کس تاریخ کو ہوگا،اس سے آگے پیچھے کرنے کی کسی میں جرأت ہی نہیں ہے ،اس کے برعکس ہمارے آئین کو موم کی ایسی ناک بنادیا گیا ہے کہ جسے اپنی مرضی و مفادکے مطابق جب چاہئے ،آگے پیچھے مروڑا جاسکتا ہے،اس وجہ سے ہی یہاں پرہمیشہ سے سیاسی انتشار اور افتراق کا دور دورہ رہا ہے ، اس پرجب تک قابو نہیں پایا جائے گا،سارے معاملات ایسے ہی بے یقینی کا ہی شکار ر ہیں گے۔
اس ملک میں ہر کوئی معاملات بگاڑ نے پر ہی تلا ہے ،کوئی معاملات سلجھانے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، ہر کوئی اپنے مفادات اور اپنے معاملات درست رکھنے میں ہی کو شاں دکھائی دیتا ہے ،صدر مملکت اور الیکشن کمیشن بھی عام انتخابات کی تاریخ دینے کے معاملے پر اپنی الگ الگ آئینی تشریحات کررہے ہیں،اس پرقیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48کی شق 5کے تحت خود ہی تاریخ دے دیں گے،اس کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ چلا جائے گا،کیاہی بہتر ہوتا کہ امریکی سفیر سے ملاقات کرنے والے چیف الیکشن کمیشن صدر مملکت سے ملاقات کر کے مسئلے کا حل نکال لیتے ،لیکن وہ تو کسی اشاروں کے منتظر رہتے ہیں، انہیں جب تک معاملات سلجھانے کا اشارہ نہیں ملتا
،وہ کیسے صدر سے مل کر معاملات سلجھا سکتے ہیں ؟ملک پہلے ہی پے در پے بحرانوں سے دو چار ہے ، اس میںآئینی تقاضوں سے کھلوڑ کسی بڑے بحران کا باعث بن سکتا ہے ، اس وقت کو شش ہو نی چاہئے کہ پہلے سے موجود بحرانوں سے نمٹا جائے نہ کہ ان میں مزید کوئی اضافہ کیا جائے ،ایوان صدر اور الیکشن کمیشن کو خود ہی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کر نا چاہئے ، انتخابات کی تاریخ دینا ایک آئینی معاملہ ہے ، اس آئینی معاملے کو آئینی انداز میں ہی حل کرنا چاہئے، اس وقت آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے دو ہی راستے ہیں، اوّل الیکشن کمیشن ہر دبائوسے آزاد ہو کر آئینی مدت میں بروقت انتخابات کا انعقادیقینی بنائے،
دوسرا چیف جسٹس پنجاب اور خیبر پختون خوا، اسمبلیوں کے انتخابات کے تنازع سے نکلیںاورآئین کو لاحق خطرات سے بچائوکے لیے تمام ججوں پر مشتمل فل بنچ بناتے ہوئے بروقت انتخابات کے انعقاد کیلئے آئین کی تشریح کا آئینی کردار ادا کریں ،تاکہ ملک وقوم کو درپش بحران سے باہر نکالا جاسکے،اگر اس بار بھی کوئی دبائو یامصلحت آڑے آئی تو پھر اس ملک میں انتخابات کا بروقت انعقاد تو دور کی بات، جمہوریت بھی چلتی نظر نہیں آرہی ہے