36

فیصلہ عوام کریں گے !

فیصلہ عوام کریں گے !

ملک کے معاشی حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں، اس کے بعدحکمرانوں کے تمام تر دعوے دھرے کے دھر ے رہ گئے ہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کا دعویٰ سچ ثابت ہورہا ہے کہ انہیں ہٹانے کی صورت میں ملک تباہی کی جانب چلا جائے گا،پی ٹی آئی آج بھی اپنے دعوے پر قائم ہے، جبکہ اتحادی حکومت کا حصول قرض کیلئے آئی ایم ایف کی ناقابل عمل شرائط قبول کرنا ہی سب کے گلے پڑگیا ہے،

حکمران اتحاد نے ایک طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کیںتو دوسری جانب معاہدے کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا دیا گیاہے،عوام اب پو چھتے ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف معاہدے سے کیا فائدہ ہوا ، اُلٹا لینے کے دینے والی صورتحال ہوگئی ہے ۔اس صورتحال میںپورے ملک کے عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں،جبکہ نگراں حکومت جانتی ہے کہ ان کے پاس عوامی مسائل کے تدارک کا کوئی فارمولا نہ ہی کوئی قابل عمل طریقہ ہے ،اس لیے ہی نگراں وزیراعظم زبانی کلامی تسلیاں دینے کے ساتھ اپنے میڈیٹ میں رہنے کی باتیں کر رہے ہیں،

یہ سارا جھگڑا ہی مینڈیٹ کا ہے، حکمرانوں کو کس نے مینڈیٹ دیا تھا کہ پاکستانی عوام کے سودے کرتے پھر یں، حکمرانوں نے صرف حکمرانی کا مینڈیٹ لے کرملک و قوم کا انتہائی ارزاں نرخوں پر سودا کیا ہے ، آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی خودکشی کے مترادف تھا ، حکمرانوں نے اپنے اقتدار کیلئے عوام کو خو کشیاں کر نے پر مجبور کر دیا ہے ، آئی ایم ایف کے تختہ دار پر عوام خودکشیاں کررہے ہیں

اور اس تختہ دار پر چڑ ھانے والے بیرون ممالک عیش کررہے ہیں۔عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ،عوام کی داد رسی کر نے کے بجائے نگران وزیر اعظم مینڈیٹ کی باتیں کررہے ہیں ،اگرمینڈیٹ ہی کی بات ہے تو نوے روز میں انتخاب کرائیں اور رخصت ہو جائیں ، اگر عوام کی فلاح کے نام پر تین سے چھ اور چھ سے دس مہینے یا سال بھر حکمرانی کا کوئی خفیہ مینڈیٹ ہے تو ا سے اپنے پاس ہی رکھیں، عوام اسے قبول نہیں کر یں گے، اب لوگوں کا ایسا حال ہو گیا ہے کہ انہیں روٹی کے علاوہ کچھ نظر آتا ہے

نہ ہی ایک اور ایک دو روٹی کے علاوہ کچھ سمجھ میں آتا ہے،نگران حکومت سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کررہی ہے ،لیکن جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے، اگر اس پر فوری ایکشن نہیں لیا گیا تو الیکشن اور مینڈیٹ سب کچھ دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے۔اس بدلتی صورت حال کا فائدہ وہ دوسری قوتیں بھی اٹھاسکتی ہیں ،اس کی نشان دہی بار بار کی جارہی ہے اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ عوامی احتجاج فسادات میں نہ بدل جائے ،لیکن اس عوام احتجاج کا سبب بنے والے ہی عوامی احتجاج کا حصہ بننے کے بیانات دینے لگے ہیں ، انہیں ایسے بیانات دیتے ہوئے کوئی حیا، کوئی شرم ہی نہیں

آئی کہ جو کام انہوں نے خودکروایا ہے، اس کے خلاف ہی بیان دے رہے ہیں، لیکن اب لوگ انہیں جاننے کے ساتھ ا ن کے سہولت کاروں کو بھی پہچان چکے ہیں،یہ اب جتنے مرضی بھیس بدل کر عوام کے سامنے آئیں ، جتنے مرضی عوام کی حمایت میں بیانات دیتے رہیں،انہیں عوام قبول کر یں گے نہ ہی معاف کریں گے ،بلکہ انہیں بار بار مسترد ہی کریں گے ۔عوام بار بار آزمائی قیادت تو مسترد کر چکے ہیں، لیکن اصل ذمے داری اب نگران حکومت کی ہے کہ فوری ایکشن لے ، یہ جو بار بار ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت ریلیف دینے کی بات کی جارہی ہے، اس کی کوئی حیثیت ہے نہ ہی عوام قبول کر یں گے

، اس استحصالی نظام سے عوام تنگ آچکے ہیں ،لیکن اس سارے نظام کو تحفظ عدالت اور حکومت نے ہی دیا ہواہے، اگر عدالتیں انصاف دینا چاہیں تو انگلیوں پر گنی جانے والی چیزیں ہیں،اگر عدلیہ اور حکومت دونوں ہی بے انصافی نہیں روکیں گے تو لوگ سڑکوں پر نکل کر وہی کریں گے جو کر رہے ہیں اور ابھی تک جو کچھ نہیں ہوا ،اگر اس ظلم و زیادتی کو روکانہیں گیا تو ملک بھر میں جو ہنگامے ہوں گے ،

اس کے بعد سب ہنگاموں کو ہی لوگ بھول جائیں گے۔اس وقت ملک و عوام کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ٹھیک نہیں ہورہا ہے؟ اگر کسی ملک میں ریاست عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کا کچومر نکالنے پر مصر رہے تو نتائج خراب ہی نکلتے ہیں،ملک کے حالات انتہائی خرابی کی جانب گامزن ہیں اور نگران حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم چند گھنٹوں میں اعلان کریں گے،

وزیراعظم کو ایک گھنٹہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے ،عوام کو فوری رلیف دینے کے موثر اقدامات کر نے چاہئے اورمینڈیٹ کا نام بھی لینا نہیں چاہئے ،یہاں پر اپنے مینڈیٹ میں کون رہتا ہے اور اس کا کون درست استعمال کرتا ہے؟ یہ باتوں کا نہیں فیصلے کا وقت ہے، اگر نگرن حکمران عوام کے مفاد میں کوئی فوری فیصلہ نہیں کرتے تو پھر عوام خود ہی فیصلہ کریں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں