34

کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے!

کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے!

ملک یک بعد دیگر ے بحرانوں کا شکار ہے ،جبکہ سیاسی حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نگران حکومت بھی عوام کو چھوٹے وعدئوں اور دلاسوں کے پیچھے ہی لگائے جارہی ہے ،نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑکا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی بحران نہیں ہے،ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت بے یقینی اور مایوسی پھیلائی جارہی ہے،اس وقت حالات مشکل ضرور ہیں، مگر جلد سرخرو ہو جائیں گے

، نگران وزیر اعظم کے بیان سے ایساہی لگ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا اور عوام اپنی قسمت کو ہی روتے رہیں گے ۔اس وقت ایک طر ف عوام اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری طر ف حیران و پر یشان ہیں کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے اور یہ کس ڈ گر پر چل رہا ہے ، یہاں کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے ، یہ سب مل کر عوام کو ہی نو چے جارہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر ے جارہے ہیں ،

ہر روز کوئی نیا ڈرامہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ،ہر روز انتخابات سے بھاگنے کا کوئی نیا بہانہ تراشا جاتا ہے ،آئین و قانون کو پس پشت ڈالنا تواب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ہے ،آئین و قانون کی سر عام پا مالی کی جارہی ہے ،کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کوئی روک رہا ہے ،ادارتی مصلحت نے سب کے ہی حوصلے بڑھا دیے ہیں،اس صورت حال میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ حکومت کون کررہا ہے

نہ ہی کوئی جانتا ہے کہ ملک کون چلا رہا ہے ؟اگر دیکھا جائے توملک میں بظاہر نگران حکومت قائم ہے ، لیکن نگران حکومت بروقت انتخابات کر نے میں کوئی دلچسپی دکھا رہی ہے نہ ہی عوام کی مشکلات کے تدار کیلئے کوئی موثر اقدامات کرتی نظر آرہی ہے ،یہ بس نام کی ایسی حکومت بنی ہوئی ہے کہ جس کا کام یہ بتانا ہے کہ خزانہ خالی ہے اوردینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، اگرآئی ایم ایف راضی ہو گیا

تو دو چار روپے کا ریلیف مل جائے گا، وگرنہ ایسے ہی گزارا کرنا پڑے گا ، یہ صورت حال خطرناک نتائج کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے ،جبکہ عوام پہلے ہی سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہیں، کیا ایسے عذر پیش کر کے عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے؟ عوام اب کسی بہلا ئوئے میں آنے والے ہیں نہ ہی کسی عذر سے ٹلنے والے ہیں ، عوام اب حکمران اشرافیہ کا دھڑن تختہ ہی کر تے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے

کہ ایک طرف غریب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہے ہیں تو دوسری جانب حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں بند نہیں ہو رہی ہیں ، اس پر بے حسی کی انتہا ہے کہ نگراں حکومت ان کی حمایت کررہی ہے،وزیر خزانہ شمشاد اختر کا سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہناہے کہ ہم بااثر گروپوں کی مرعات بند نہیں کر سکتے،یعنی حکمرانوں کے نزدیک پچیس کروڑ عوام بے اثر اور چند فیصد اشرافیہ بااثر ہیں ،اس ملک کے وہی مائی باپ ہیں اور انہیں پالنا بھی عوام کی ہی ذمہ داری ہے، ملک کے جب حالات اتنے خراب ہیں

تو پھر بااثر اور بے اثر کی تقسیم کیوں برقرار رکھی ہوئی ہے،ملک میں بڑے اور کڑے فیصلے کیوں نہیں کئے جا رہے ہیں ،ہم آج بھی بااثر اور بے اثر کی تقسیم میں ہی الجھے ہوئے ہیں،حالانکہ یہ مل کر قربانی دینے کا وقت ہے، اب ا یسا نہیں ہو سکتا ہے کہ غریب عوام کو خزانہ خالی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر صبر و شکر کی تلقین کی جائے اورایک خاص طبقے کو اربوں روپے کی مراعات دی جاتی رہیں، یہ سب دیکھتے ہوئے عوام میںاضطراب کی گھنٹی بجنے لگی ہے ، اگر اس گھنٹی کی بڑھتی گونج کو بروقت سنا نہ گیا

تو صورتِ حال بہت زیادہ بگڑ بھی سکتی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہر چیز عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہے‘ ہر گھر میں غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں‘ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں‘ نگران حکومت کو عوام کی مشکلات کا ادراک ہونا چاہیے اور ان کی مشکلات میں کمی لانے کی کوشش کرنی چاہیے، ناکہ عوام مخالف بیانات اشتعال دلا جائے ،نگران حکومت کاکام عوام کو اشتعال دلانا ہے

نہ ہی عوام مخالف فیصلے کر نا ہے ، نگران حکومت کاکام بر وقت انتخابات کرواکر چلے جانا ہے ،لیکن نگران حکومت طویل مدتی ایجنڈے پر عمل پیراں جو عوام مخالف اقدامات کررہی ہے ، اس کا خمیازہ بھی سود سمیت اُسے ہی بھگتنا پڑے گا، اس بار کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے ، عوام ہر آزمائے کو معاف نہیں کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں