حالات بدلتے نظر نہیں آتے!
پورے ملک میں ایک ہجان سا بر پا ہے ،ایک طرف بڑھتی مہنگائی کی لہر چل رہی ہے تو دوسری جانب بدترین دھونس و دھاندلی مسلط کی جارہی ہے ، غریب عوام خالی پیٹ کا عذاب تو بھگت ہی رہے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ مختلف حوالوں سے جو زور زبر دستی کی دھونس دیکھنے میں آرہی ہے ، وہ سب کے ہی دلوں کو دہلارہی ہے
،ہر طرف ڈر و ایک خوف و ہراس کی ایسی فضاء پیدا ہو چکی ہے کہ جس میں عام آدمی کا سانس لینا بھی مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت ملک کے مستقبل سے انتہائی مایوس نظر آرہے ہیں ، اب لوگوں کی سوچ بدلنے لگی ہے ،لوگ محسوس کر نے لگے ہیں کہ اس ملک میں رہنے کا کوئی فائد نہیں ،ایسی ہی سوچ کا ایک خطر ناک پہلو سامنے آرہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے نعرے سننے کو مل رہے ہیں
کہ جنہیں سن کر ہی خوف محسوس ہو نے لگتا ہے ، کر اچی سے لے کر گلگت تک حا لات دن بدن انتہائی خراب ہوتے جارہے ہیں ،لیکن نگران حکمران عوام کو جھوٹے دلاسے ،جھوٹی تسلیاں دینے سے ہی باز نہیں آرہے ہیں۔اس قوم کی بد نصیبی ہے کہ اس کے حکمران باہر سے آتے ہیں ،حکمرانی کرتے ہیں اور حکومت ختم ہونے پر دوبارہ باہر چلے جاتے ہیں ، سابق وزیر اعظم شہباز شریف بھی ملک کو بد ترین مہنگائی میں جھونک کر لندن پہنچ چکے ہیں اور وہاؓ ں بیٹھ کر ایسے معصومانہ بیانات دیے رہے ہیں
کہ جیسے پہلی مرتبہ صرف سولہ ماہ کے لیے اقتدار میں آئے تھے، حکومت جب بھی بنتی ہے، وہ تنہا کسی پارٹی کی بنے یا بھان متی کا کنبہ مل کر بنائے، اس حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کا بار سب کو ہی اٹھانا پڑتا ہے،لیکن اس ملک میں ایک دوسرے پر ڈالنے اور ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کی ایسی روایت چلی ہے کہ ختم ہو نے میں ہی نہیں آرہی ہے ۔اس قوم کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیں کہ کب تک ایسی جھوٹی تقریروں، وعدوں اور الزامات پر بھروسہ کرتے رہیں گے، یہ سب اپنے ساٹھ سالہ دور اقتدار میں کچھ نہ کر سکے تو آئندہ کیا کریں گے ، لیکن یہ آزمائے ہوئے بضد ہیں کہ وہی عوام کے مسیحا ہیں اور وہی دوبارہ بر سر اقتدار آکر عوام کو در پیش بحرانوں سے باہر نکالیں گے ،
ان کی خوش فہمیاں اپنی جگہ بجا ہیں ،انہیں عوام کو ور غلانا ہی نہیں ، بلکہ اپنا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنا بخوبی آتا ہے،مسلم لیگ( ن) کے وزیر با تد بیراحسن اقبال کو ہی دیکھ لیجئے کہ بجلی کے اضافی بلوں کے بعد مہنگی چینی کا ملبہ خود پر پڑاتو اتنا ہلکا بیان دے ڈالا کہ یہ فیصلہ نوید قمر نے کیا تھا، حالانکہ اس سارے ڈرامے میں سارے ہی شریک کار اور سارے ہی ذمہ دار ہیں ، لیکن اپنے سر پڑنے پر کو ایک بھی ذمہ داری قبول کر نے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا ہے ۔اس پرانے نوسربازی والے ڈرامے کو اب اچھی طرح پہچان لینا چاہئے،
یہ لوگ بے شرمی سے عوام کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں اور پھر ایک ساتھ بیٹھ کر عوام کے خلاف ہی قانون سازیاں کرتے ہیں، یہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے قر ض پر قر ض لیتے ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈالتے ہیں ،عوام قرض کے بوجھ تلے پس رہے ہیں اور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں
،یہ ایک طرف اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں تو دوسری جانب پٹرول ،بجلی ،گیس ،آٹا ،چینی کی قیمتیں بڑھا کراپنی تجوریاں بھرتے ہیں ،حکمران اشرافیہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ ر ہے ہیں اور عوام بڑی بے بسی سے لٹ رہے ہیں ، لیکن کوئی پو چھنے والا نہیں ،کیو نکہ سب ہی اندر سے ملے ہوئے ہیں۔
یہ بظاہر اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے پر کرپشن کے جو الزامات لگاتے ہیں، یہ جھوٹ نہیں ہیں، یہ سب ہی ایک دوسرے کے شریک کار ہے ہیںاور ایک دوسرے کی کرپشن بارے جانتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کے پول مخالفت برائے مخالفت میں ہی کھولتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سابقہ حکومت کے بڑے حصے دار ہے ہیں،
یہ کون نہیں جانتا کہ بجلی کے معاہدوں میں کس نے کمایا اورچینی کون کھاگیا ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں کہ چینی برآمد اوردرآمد کرکے مہنگی بیچنے کا فائدہ ہورہا ہے ،لیکن جانتے بوجھتے انجان بننے کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔
یہ افسوس ناک امر ہے کہ عوام کا ہر ادارے سے ہی اعتبار اُٹھ گیا ہے، ورنہ تحقیقات کرئی جائیں تو فوری پتا چل جائے گا کہ اس چینی کی در آمد اور برآمدی ڈامہ میں کون شرک کار رہا ہے اور کون دونوہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہا ہے، اس واردات میں کوئی ایک نہیں، ہر ایک کے ہی ہاتھ رنگے نظر آئیں گے ، لیکن کوئی مانے گا نہ ہی گر فت میں آئے گا ،کیو نکہ اس حمام میں سب ہی ننگے اور سارے گندے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ،عوام جب تک ان آزمائے لوگوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کریں گے ، عوام کی زند گی میں کوئی تبدیلی آئے گی نہ ہی ملک کے حالات بدلیں گے ،یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا ،جیسا کہ چل رہا ہے ۔