یہاں پر دِکھتا ہوتا نہیں ! 46

انتخابات سے فرار کب تک !

انتخابات سے فرار کب تک !

اس ملک کے حکمرانوں نے عوام کوجس دلدل میں دھکیل دیا ہے ،اس سے نکل کا ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے کہ لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں، عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیاہے اور وہ سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہے ،یہ روٹی روزی کے انتظام میں الجھے عام آدمی کا غیظ وغضب میں ازخود سڑکوں پر نکل آنا، اس بات کا اظہار ہے کہ عوام کو اس بات کا مکمل یقین ہوگیا ہے کہ ان کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے،عوام کو بہلانے کیلئے ایک بار پھر کچھ نما ئشی اقدامات کیے جارہے ہیں

، لیکن عوام اب کسی طفل تسلیوں سے بہلنے والے ہیں نہ ہی انتخابات میں اپنے حق رائے دہی سے ٹلنے والے ہیں۔پاکستان میں آج ایسے تمام آثار جو انارکی کی علامت سمجھے جاتے ہیں،دکھائی دیے رہے ہیں، کوئی ایک معمولی چنگاری سب کچھ بھسم کرسکتی ہے، کوئی ایک حادثہ سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے تو ایسے میںنگران پاجی لوگ معاملات سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑنے میںہی لگے ہوئے ہیں،عوام کو چھوٹے دلاسے دیے جارہے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری اور وہ بھی اربوں ڈالرز کی صورت میں بس آیاہی چاہتی ہے،اس کا مطلب ہے کہ لوگ مزیدصبر سے کام لیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا

،جبکہ بین الاقوامی میڈیا سارے پول کھول رہا ہے کہ پا کستا ن کے حالات اتنے خراب ہیں اور کوئی سر مایہ کاری کے آثار دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں ،اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اُٹھائے جاتے کہ جن سے سرمایہ کار برادری میں ساکھ بہترہوتی ، بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات واپس لی جاتیں ، سرکاری و ادارہ جاتی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اعلان کیا جاتا، ٹیکسوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کے عملی اقدامات کا آغاز کیا

جاتا اوراٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوجانے والی وزارتیں اور ادارے ہی بند کردیے جاتے تو عوام کوکسی حد تک تسلی ہو جاتی کہ حکومت اپنا قبلہ درست کر رہی ہے ، لیکن یہاں ڈننگ ٹپائو پرو گرام کے تحت عوام کو بہلایا جارہا ہے۔اس وقت حالات اتنے نازک ہیں کہ عوام طفل تسلیوں سے بہلنے والے ہیں نہ ہی ڈننگ ٹپائو پروگرام سے بات بننے والی ہے ، عوام کا پارہ ہائی ہے اور آزمائے لوگوں سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یہ انتخابات سے اسی لیے بھاگ رہے ہیں کہ اس میںان کے لیے کچھ بھی نہیں رکھاہے

،یہ عوام کے سامنے کس منہ سے جائینگے،انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال جو کل کھلائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، عوام ہی ان سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں،جبکہ نگران حکومت معاملات نیم آمریت کے ذریعے چلانے میں کو شاں دکھائی دیتی ہے،تاہم اگلا کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سرکار ضرور سوچ لے کہ کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں ، ایسے میں لازم ہے کہ عدل کے تقاضے اختیار کیے جائیں، بلا امتیاز سب کے ہی خلاف کاروائی کی جائے اور جس نے جو کھایا ہے، اس کے حلق میں سے انگلی ڈال کر باہر نکالا جائے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔
اس بات سے کوئی انکاری نہیں

کہ احتساب ہو نا چاہئے ، مگر احتساب کون کر ے گا ، یہاں ہر دور میں احتساب کا نعرا لگا کر انتقام لیا جاتا رہا ہے ، اس دور اقتدار میں بھی انتقامی سیاست اپنے عروج پر ہے ، ایک طرف انتقامی سیاست کا دور دورا ہے تو دوسری جانب احتساب کی باتیں کی جارہی ہیں ،اس حتساب کی زد میں صرف اپنے نا پسندیدہ لوگ ہی لائے جائیں گے، یہ کیسا احتساب ہو گا کہ جس میںانصاف کے تقا ضوں کو پورا نہیں کیا جائے گا

، ایسا احتساب کے پہلے نتائج اچھے نکلے نہ ہی آئندہ نکلنے والے ہیں ، اس لیے احتساب کا کھیل کھیلنے کے بجائے عوام کو ہی احتساب کر نے کا موقع دیا جا نا چاہئے ،عوام سے بہتر کوئی بلا امتیاز احتساب کر سکتا ہے نہ ہی انصاف پر مبنی فیصلہ کر سکتا ہے ، عوام ہی سب سے بہتر فیصلہ کر نے والے ہیں ، لیکن عوامی کے مطالبے کے باوجود فیصلہ کر نے کا موقع ہی نہین دیا جارہا ہے۔
عوام ایک عرصے سے عام انتخابات کامطالبہ کررہے ہیں ، لیکن اس وقت ایسا ماحول نظر آرہا ہے کہ جس میں بروقت عام انتخابات ہوتے دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں

،ایک طرف مائنس پلس کا کھیل کھیلا جارہا ہے تو دوسری جانب الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ اسے انتخابات کرانے کی جلدی نہیں ہے، نگراں حکومت کے ارکان کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ جیسے وہ طویل عرصے کے لیے آئے ہیںاور انہیں انتخابات کر نے کی کوئی جلدی نہیں ، وہ جن کے مر ہون منت آئے ہیں ،

اُن کے اشارے پر ہی انتخابات کرائیں گے اور انہیں کے کہنے پر جائیں گے، اس لیے عوام مخالف پا لیسیوں کے تسلسل میں ہی لگے ہوئے ہیں،نگران حکومت کو عوام کو زندہ درگور کرنے والی پالیسیاں طے کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی توجہ انتقال اقتدار کے پراسس کی تکمیل پر ہی مرکوز رکھنی چاہیے ،اس میںہی ملک وعوام اور سسٹم کی بقاء ہے،بصورت دیگر عوام کے بڑھتے اضطراب میں سب کچھ ہی بہہ جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں