آزمائی سیاست لے دوبے گی !
ہماری سیاست کا چلن بڑہی عجیب ہے ،اس میں کبھی کچھ بھی بدل سکتا ہے ، کل کا حریف آج حلیف اور آج کا حریف کل حلیف بن سکتا ہے ،سیاست کبھی نظریات واصولوں کے تابع تھی،مگر اب مفادات کا ہی کھیل بن کررہ گئی ہے، اس مفاداتی کھیل میں اہل سیاست کو دوست دشمن کا روپ دھارتے تو سب نے کئی بار دیکھا
،لیکن پہلی بار باپ بیٹے کو اختلاف رائے کرتے دیکھا جا رہے ہیں ،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے متضاد بیانات سے بظاہر اختلافات کا تاثر اُبھرتا ہے ،لیکن اصل میں ایسا ہر گز نہیں ہے ،یہ باپ بیٹا اپنی اگلی سیاسی اننگز میں گڈ کاپ ،بیڈ کاپ کا کھیل کھلتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔
پا کستانی سیاست میں مفاہمت و مزحمت کا کھیل پہلی بار کھیلا جارہا ہے نہ ہی عوام کو پہلی بار بہکایا جارہا ہے ،اس سے قبل شر یف براداران بھی ایسا ہی کچھ کرتے آرہے ہیں ، میا ںنواز شریف اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے مزاحمت کی سیاست کرتے رہے اور میاں شہباز مفاہمت کا راگ الاپتے رہے ہیں ،یہ نسخہ شر یف برادران کی سیاست کا اہم جز رہا ہے ،اگر اس راہ کی پیپلز پارٹی بھی مسافر بن رہی ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے
،پیپلز پارٹی سیاسی طور پر گزشتہ سولہ ماہ کی غلطیوں کا بار اٹھانے کے بجائے اپنا چہرہ دھونے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کررہی ہے کہ جس سے ایسا محسوس ہو کہ پارٹی میں کوئی اختلاف ہے اور کوئی بڑا تنازعہ کھڑا ہونے والا ہے، حالانکہ پارٹی کی روایات کو دیکھیں تو صدر پاکستان کے ایک غیر موثر منصب والے آصف زڑداری کا معاملات پر حد سے زیادہ کنٹرول ثابت کرنے کے لیے کافی ہے
کہ پیپلز پارٹی ان کی آنکھوں کے اشارے پر ہی چلتی ہے تو کل کا اپناہی بچہ بلاول کیسے اُن کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔یہ بات بھول ہی جائیں کہ باپ بیٹے میں کوئی پھوٹ پڑی ہے یا کوئی بڑا اختلاف سامنے آنے والا ہے ، آئندہ چند ہفتوں میں ایسا ہی کچھ مسلم لیگ( ن)میں دیکھائی دیے گا کہ جب میاں نواز شریف اپنے ہی بھائی شہباز شریف کی سولہ ماہی حکومت کو ہدف تنقید بنائیں گے ،یہ سب ایسے ہی سیاسی ہاتھی ہیں
کہ جن کے دکھانے اور کھانے دانت الگ ہیں ، یہ سب کھانے کے وقت ایک ہو جاتے ہیں اور حساب دینے کے وقت الگ ہو کر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر نے لگتے ہیں ، آجکل بھی الیکشن لڑنے کیلئے عوام کو ایک دوسرے کے مخالف ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے ،ورنہ دونوں بڑی جماعتوں میں اندر خانے طے ہو چکا ہے
کہ عام انتخابات کے بعد دوبارہ مخلوط حکومت ہی بنائی جائے گی ۔یہ ظاہری اختلاف رائے سیاسی شعبدہ بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن) اختلاف ہوں یاپیپلز پارٹی میں باپ بیٹے کا اختلافی بیانیہ ،یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ قوم اب اپنے خلاف ہونے والے سارے اقدامات کے ذمے داروں کو پہچان چکی ہے اور یہ سب بے نقاب نظر آنے لگے ہیں،
انہیں اپنا چہرہ چھپانا ہے اور ایک نئے چہرے کے ساتھ دوبارہ سامنے آنا ہے ، اس لیے سارے ڈرامے کیے جارہے ہیں،لیکن یہ ڈرامے اب چلنے والے نہیں ،کیو نکہ انہیںقوم بے نقاب دیکھ کر پہچان چکی ہے ،تاہم آزمائے کو آزمانے پر بضد فیصلہ سازوں کو بھی عوام کے حق میں اپنی سوچ کو بد لنا ہو گا۔
عوام اہل سیاست سے مایوس ہو کر مقتدر حلقوں سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس بہنور سے نکالیں گے ، عوام کو آزمائے سے چھٹکارہ دلائیں گے ، جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ، عوام کو دوسروں پر تکیہ کر نے کے بجائے خود ہی جد جہد کر نا ہو گی ، اہل سیاست کی اصلیت پہچانے کے ساتھ فیصلہ سازوں کی سوچ کو بھی بدلنا ہو گا ، اپنی فیصلہ سازی کا حق اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا ، یہ تبھی ممکن ہے کہ جب عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے ،عوام کب تک مزید وقت سراب میں گزاریں گے ،
کب تک چھوٹے وعد ئوں اور کھوکھلے نعروں پر یقین کرتے رہیں گے ،کب تک شخصیت پر ستی کی بیماری کا شکار رہیں گے ،کب تک دوسروں سے اُمیدیں لگائے بیٹھے رہیں گے ، عوام کو اپنے حق کیلئے مل کر نکلنا پڑے گا ، عوام جب تک ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں گے اور ایک دوسرے کا انتظار کرتے رہیں گے ، عوام کے مسائل کا حل نکلے گا نہ ہی آزمائی سیاست عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لاپائے گی ،اگر اب بھی عوام کسی مسیحا کے انتظار میںبیٹھے رہے تو یہ آزمائی سیاست ملک و عوام کو لے دوبے گی