ابھی بے یقینی کی دھند نہیں چھٹی!
ملک میں سیاسی حالات تیزی سے بدل ر ہے ہیں، ہر آنے والا دن ایک نیا سیاسی منظر پیش کرتادکھائی رہا ہے، حلیف او ر حریف صفوں میں بھی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،لیکن عوام کی زندگی میں تبدیلی کے آثار کہیں دکھائی دیے رہے ہیں ،اہل سیاست آپس میں جتنی مرضی دھما چوکڑی کریں، جتنی چاہے قلابازیاںلگائیں،جتنے چاہئے کھیل تماشے کرتے رہیں، لیکن اس ملک کے غریب عوام کو بخش دیں، ان کی روزی اور روزگار کے حالات خراب نہ کریں ،انہیں دو وقت کی روٹی سے محروم نہ کریں، اگر اہل اقتدار بدلتے حالات اور بدلتے وقت کے تیوروں کو ایسے ہی نظرانداز کرتے رہے تو پھروقت اورحالات جو فیصلہ کریں گے، وہ کسی کے لئے بھی زیادہ خوشگوار نہیں ہوں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر دور اقتدار میں بدلتے حالات اور بدلتے وقت کا ادرک نہیں کیا گیا ،اس بار بھی نہیں کیا جارہا ہے ، اس کا پہلے بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ، ایک بار پھر ہونے جارہا ہے ،لیکن اس کی کوئی پرواہے نہ ہی اپنی روش بدلی جارہی ہے ، ایک بار پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں، ایک بار پھروہی پرانا سکرپٹ نیا کر کے دہرایا جارہا ہے ، ایک طرف ڈیل اور ڈھیل دی جارہی ہے تو دوسری جانب پا بندیوں کی انتہا کی جارہی ہے ،اس امتیازانہ رویئے کا کل ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اوراب بھی ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑے گا ، اس کے وجود ایک بار پھر اپنی ضد و انا کی بھینٹ سب کو ہی چڑھایا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت گراتے اور پی ڈی ایم اقتدار میںلاتے وقت بڑے بڑے دعوے کئے گئے کہ تجربہ کار مل کر ملک میں استحکام لائیں گے،لیکن سارے دعوئے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں ،ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جاسکا نہ ہی غریب عوام کی بڑھتی مشکلات کا تدارک کیا جاسکا، ہر طرف بے یقینی کی ہی دھند چھائی ہے، مہنگائی 13 سے بڑھ کر 50 فیصد تک جا پہنچی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے گرتے ساڑھے تین ارب ڈالر تک چلے گئے ہیں، برآمدات میں انتہائی تیزی سے کمی اور ڈالر ، پٹرول کے نرخ آسمان کو چھونے لگے ہیں،یہ پی ڈی ایم حکومت کی سولہ ماہ کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ آج ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے ، اگرآزادانہ اور منصفانہ ماحول میں انتخابات ہو جائیں تو یہ ساری جماعتیں بری طرح سے مہنگائی سے تنگ عوام کے ردعمل کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
یہ کل کے اتحادی ،آج جانتے ہیں کہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے ،اس لیے ہی بروقت انتخابات کے انعقاد سے بھاگ رہے ہیں ،انہیں اقتدار میں رہتے ہوئے جن مسائل کا اندازہ نہیں ہورہا تھا، اب سارے ہی مسائل عوام کا سامنا کرتے ہوئے کھل رہے ہیںتو عوام دشمن پالیسیوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا تے ہوئے جان چھڑائی جارہی ہے ، تاہم اس سیاسی جھگڑے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ میثاق جمہوریت صرف اقتدار کے فائدے بانٹنے کا معاہدہ تھا،اگر اقتدار نہ ہو تو کوئی جماعت بھی میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق کام کرنے کو تیار ہے نہ ہی کوئی میثاق معیشت یاد رہتا ہے،یہ سب کچھ حصول اقتدار کیلئے کیا جاتا ہے
وہیں اپنی ذاتیات سے نکل کر قومی مفاد میں کچھ عملی اقدامات بھی کر نا ہوں گے ، اہل سیاست کے پاس ابھی وقت ہے کہ معاملات کو لے کر آگے بڑھیں اور ایک دوسرے سے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بے یقینی کی فضاء کا خاتمہ کریں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ،یہ پورا نظام ہی تباہ ہو جائے،قومی مفاد میں کچھ کر گزرنا چاہئے ، ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ،یہ سب خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور کوئی تیسرا ہی اقتدار میں آبیٹھے گا۔