ناخوندگی کے اندھیرے میں الخدمت کا روشن چراغ !
تعلیم ایک ایسا زیور ہے کہ جس کے بغیر انسان کسی بھی شعبہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا، آئین پاکستان کے مطابق ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے، اس حوالے سے ہر دور حکومت میں تعلیم کو عام کرنے کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ،تعلیمی پالیسیاں بھی یبنائی جاتی رہی ہیں ، اس میں سے بعض منظر عام پر ہی نہیں آئیںاور کچھ تجرباتی طور پر آزمائی بھی جاتی رہی ہیں، لیکن اس کے خا طر خواہ نتائج نکلے نہ ہی ہماری شرح خواندگی میں اب تک کوئی اضافہ ہو پایاہے۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہماری آزادی کو 76سال گزر چکے ہیں، لیکن ہماری شرح خوندگی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہاہے، پا کستان اقتصادی سروے2022,23ء کے مطابق ملک میں خواندگی کی مجموعی شرح 62فیصد ہے ،جوکہ کسی صورت تسلی بخش نہیں ہے ،اس کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قرار دیا جا سکتا نہ ہی کوئی ایک مخصوص عمل رہا ہے،اس کے بہت سارے عوامل رہے ہیں،
اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ہر دور حکومت کا ہی رہا ہے، ایک طرف تعلیم پر بہت ہی کم بجٹ خرچ کیا جا تارہا تو دوسری جانب جوامداد ملتی رہی ہے،اسے بھی ٹھیک طرح سے خرچ نہیں کیا جاتا رہاہے، ہمیں یونیسکو تعلیم کی مد میں پیسہ دیتا ہے ،آئی ایم ایف والے بھی خطیر رقم دیتے ہیں اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی تعلیم کے مد میں کافی رقم آتی رہتی ہے، لیکن یہ ساری رقم صحیح طریقے اور ایمانداری سے تعلیم پر استعمال ہی نہیں کی جارہی ہے ۔اس ملک میں ہر دور حکومت میں عوام کبھی حکمرانوں کی تر جیح رہے
نہ ہی عوام کی بنیادی سہو لیات تعلیم و صحت تک کو اپنی تر جیحات میں شامل کیا گیا ہے ،جبکہ عوام اتنے کم مالی وسائل کے باعث اپنا بوجھ خود اُٹھا پارہے ہیں نہ ہی اپنے ہو نہار بچوں کو تعلیم دلا پارہے ہیں ،اس نازک صورتحال میں الخدمت فاؤنڈیشن ہی ایک ایسا ادارہ ہے ،جو کہ عوام کی بڑھتی مشکلات میں سہارا دیے رہا ہے ،
الخدمت فاؤنڈیشن جہاں عوام کو ہر بنیادی سہو لیات دینے میں مدد گار ہے ،وہیں الخدمت الفلاح اسکالر شپ کے ذریعے ہونہار نوجوانوں کیلئے امید کی کرن بھی بنا ہواہے،اس سکالر شپ کے تحت ہی گزشتہ دو دہائیوںسے زائد عرصہ سے مالی دشواریوں کا شکار ہزاروں ذہین طلبہ وطالبات کو حصول تعلیم میں مدد فراہم کی جا چکی ہے ۔اس مشن کا آغازالخدمت فاؤنڈیشن کے نائب صدر محمد عبدالشکور نے اپنے چند علم دوست اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکرایک مثبت اور تعمیری سوچ کے تحت 1998ء میں کیا تھا ،الخدمت الفلاح اسکالر شپ کیلئے ذہین اور مالی مشکلات کے شکار طلبہ و طالبات کا میرٹ پر انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر انہیں ہائر ایجوکیشن کے لئے وظائف فراہم کئے جاتے ہیں،
اس میںسب سے بڑھ کر الفلاح سکالر شپ نے وظائف کا سلسلہ اتنا باوقار بنارکھا ہے کہ کسی مرحلے پر طالب علموں کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی ہے ،اس وقت الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے تحت چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 936ہونہار اور مستحق طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ذات اور سیاسی وابستگی کے تعلیمی وظائف فراہم کیے جارہے ہیں ۔
الخدمت اپنے تائیں خواندگی میںاضافے کیلئے بھر پور کوشش کررہی ہے ، ایک طرف ہو نہار طلباء کو وظائف دیئے جارہے ہیں تو دوسری جانب الخدمت کے تحت ہی ملک بھر میں 63سکول بھی کام کر رہے ہیںکہ جن میں 15 ہزار سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں،اس کے علاوہ ملک بھر میں سٹریٹ چلڈرن کی بڑھتی ہوئی تعدادکے پیش نظر الخدمت چاروں صوبوں میں 65چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بھی چلا رہی ہے کہ جن میں2750بچوں کو رسمی و غیر رسمی تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات، حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق خورک کے ساتھ ساتھ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں فراہم کی جارہی ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ اور سہولیات دیئے بغیر ملک کے مستقبل کو تابناک نہیں بنایا جا سکتاہے،اگر ہم نے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے اور تیز رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو نا ہے تو وطن عزیز کے ہر بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا اور اس مقصد کے حصول کے لئے خواندگی کی شرح بڑھانے اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دینا ہو گی ، اس حوالے سے الخدمت فائونڈیشن اپنا بھر پور کردار ادا کررہی ہے ،لیکن حکومت کیا کررہی ہے ؟
اگر حکمرانوں کو اپنی سیاسی محاذ آرائی سے فرصت ملے تو قوم کے نونہال پاکستان کے روشن مستقبل کے متعلق بھی زراہ سوچ لیں ، حکومت قوم کے ان معماروں کی معیاری تعلیم کے لئے تمام تر وسائل بروئے کا رلائے ، اگر خود کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم الخدمت فائونڈیشن جیسے اداروں سے ہی تعاون کر لے ، تاکہ اس ناخوندگی کے اندھیرے میں الخدمت کے روشن چراغ سے ہی نا خوندگی کے اندھرے چھٹ جائیں ، یہ مفاد پرست حکمرانوں کیلئے مشکل ضرور ،مگر قومی مفاد میں ناممکن نہیں ہے۔