مثبت خواب دیکھنے والے ہی،اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے پاتے ہیں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
مملکت سعودی عرب فرماں روا، صاحب الملکی سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور انکے فرزند کراؤن پرنس محمد بن سلمان آل سعود المعروف ایم بی ایس اور آج کی تاریخ تک مملکت سعودی عرب کے37 ملین شہریوں کو، آزاد مملکت سعودی عربیہ کی 97وین سالگرہ پر، مبارک باد پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں ۔اس خاکسار کو بھی اپنی گریجویشن تعلیم اختتام بعد،آج سے چالیس سال قبل ،اسی ماہ 10 ستمبر 1983، پہلی دفعہ معاش کے لئے جدہ سعودی عربیہ آتے ہوئے،اپنے پورے چالیس سال، مملکت سعودی عرب میں،انتہائی سکون و صحت کےساتھ گزارنے پر، خود مبارکباد پیش کرتے ہوئے،
ہمارے ساتھ لاکھوں کروڑوں ہم مسلمانان عالم کو اور کفار و مشرکین کو بھی اپنے حصول معاش سفر پر مملکت آتے ہوئے، خوب تر معشیتی طور سیراب ہونے پر ، رزاق دوجہاں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور اپنے 40 سالہ معشیتی سفر دوران، ہمیں ملے متعدد کفیل سعودی شہری اور دیگر بیشمار سعودی شہریوں کا پیار و عزت ہمیں جو ملا ہے، ہم اس کے لئے بھی اللہ رب العزت کے ساتھ تمام باشندگان سعودی عرب کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ چونکہ ہم سابقہ تین چار دہوں سے، اپنے نقاش نائطی اور ابن بھٹکلی قلمی نام سے بھارت و پاکستان کے مختلف اخبار و ویب پورٹل پر، مختلف موضوعاتی آگہی مضامین لکھتے آئے ہیں۔
مملکت میں اپنے چالیس لمبے معشیتی سال، آمن و سکون سے گزارنے پر، مملکت سعودی عربیہ کے، آزادانہ مملکت معرض وجود آنے والے، 97وین یوم تاسیس پر،اپنے مملکت کے تئیں، تہنیتی چند کلمات لکھنا اپنا فرض سمجھتے ہوئے، کچھ ساعتی کاوشوں سے یہ تحریر اپنے قارئین کے حضور پیش کررہے ہیں اس میں ہم کتنے کامیاب ہیں یہ تو ہمارے معزز قارئین کی آراء ہم تک پہنچنے کے بعد ہی، ہمیں اپنی کمیوں خامیوں کی آگہی ہوگی
احقر
محمد فاروق عبدالقادر شاہ بندری۔عرف عام نقاش نائطی یا ابن بھٹکلی
طویل مدتی دائمی خواب بننے والے اور اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں، جی جان سے جڑےرہنے والے،یقیناً اپنی زندگی ہی میں، اپنےخواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے ضرور پالیتے ہیں۔ شاہی خاندان میں آنکھیں کھولنے کے باوجود سعودی حکومتی وراثت میں، محمد بن سلمان کے لئے،مملکت کی بادشاہت کا خواب دیکھنا کوی آسان کام نہ تھا۔ محمد بن سلمان کو بچپن ہی سے مہم جو کہانیاں سننے اور پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی لئے شائد عام سعودی شہزادوں کی طرح، اعلی تعلیم حصول ہی کے بہانے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس جانے کے بجائے، اپنی ابتدائی تعلیم بعد اعلی علم قانون بھی، محمد بن سلمان نے مملکت ہی میں حاصل کرتے ہوئے، اپنے والد محترم سلمان بن عبدالعزیر جوکہ محمد بن سلمان کی پیدائش سے قبل ہی سے منطقہ ریاض کے گورنر کے طور خدمات انجام دے رہے تھے
،اپنے والد محترم کی سرپرستی میں زمام حکومت کے کاموں میں انکی مدد و نصرت کرتے، اقتدار حکومت انجام دہی کے فرائض ادائگی میں مہارت و یکتائی حاصل کرنی شروع کی تھی ان کے والد محترم سلمان بن عبدالعزیز آل سعود یقینا بادشاہ مملکت سعودی عرب بننے کی راہ پر گامزن تھے لیکن سعودی عرب حکومتی اقتدار وضع مشاورت قوانین کی رو سے، حکومتی اقتدار، شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں میں، یکے بعد دیگرے منتقل ہونا طہ تھا۔ اس اعتبار سے سلمان بن عبدالعزیز کے بعد انکے چھوٹے بھائی احمد بن عبدالعزیز شہنشاہ مملکت سعودی عربیہ کے دعویدار تھے۔اور سابق بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال سے پہلے، بادشاہ بننے کی راہ کے دعویدار،اس وقت کے کراؤن پرنس نائف بن عبدالعزیرکا انتقال 2012 میں چونکہ ہوچکا تھا
اسلئے مشاورت شاہی خاندان سے، 2015 شاہ عبداللہ کی وفات بعد، سلمان بن عبدالعزیز نے بادشاہ منتخب ہوتے ہی، اپنے متوفی بڑے بھائی نائف بن عبدالعزیز کے بیٹے،محمد بن نائف کو اپنا ولی عہد نامزد کرلیا تھا۔اس صورتحال میں بچپن ہی سے محمد بن سلمان کا بادشاہ مملکت بننے کا خواب شیخ چلی کے خواب سے زیادہ نہیں لگتا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا، قوم و ملت کی بھلائی کے لئے، دیکھے گئے خواب کو سنجیدگی سے شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے تو، انسانیت کی بھلائی کے اسکے عظیم مقصد کے پیش نظر، اللہ رب العزت بھی، اس کے لئے انتہائی مشکل راہ کو، اس کے لئے آسان کردیتے ہیں
چھوٹی عمر سے ہی ایم بی ایس حکومتی ذمہ داریوں میں دلچسپی رکھتے تھے، اپنے والد کے ساتھ ان کے سایہ کی طرح رہتے تھے اور اپنی شبیہ اور امیج مسلسل بہتر سے بہتر کرنے کی فکر ہی میں رہتے تھے۔ اس دوران انہیں مختلف ملکوں کے معززین کے ساتھ بات چیت کرتے عالمی سطح بڑے لیڈروں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے بے شمار مواقع ملتے رہتے تھے اور اسلوب حکومت چلانے کا انداز سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ انہوں نے ریاض، سعودی عرب میں کنگ سعود یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی،
جہاں انہوں نے 2007 میں قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 2009 میں وہ اپنے والد کے باضابطہ مشیر بن گئے، جو اس وقت ریاض کے گورنر تھے۔ جس سے ایم بی ایس کو حکومتی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے ، عہدے اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کا خوب موقع ملا۔ جنوری 2015 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کا انتقال ہوجانے کے بعد، سلمان بن عبدالعزیز بادشاہ بن گئے۔ انہوں نے فوری طور پر ایم بی ایس کو اپنا وزیر دفاع مقرر کر دیا۔ چند مہینوں میں ایم بی ایس نے یمن کی خانہ جنگی میں جارحانہ فوجی مداخلت شروع کی جو آپریشن “فیصلہ کن طوفان” کے نام سے جانی جاتی ہے،
اس مہم کا مقصد یمن کے شیعہ حوثی شورش کے خلاف فیصلہ کن برتری حاصل کرتے ہوئے۔ حوثیوں کے حوصلے پسپا کرتے ہوئے، سعودی عرب کی جنوبی سرحد پر سعودی عرب کے اہم علاقائی حریف ایران کے بڑھتے اثر رسوخ کو زائل کرنا تھا، لیکن اس مہم جوئی کا رخ ھدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اس نے ایک طویل تعطل اور جدید تاریخ کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک بحران کو جنم لیا۔
ایم بی ایس کو تیل کی سرکاری کمپنی آرامکو اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک کی بنیادی پالیسی سازی کی کونسل آف اکنامک اینڈ ڈیولپمنٹ افیئرز کا انچارج بھی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے آرامکو کو ابتدائی عوامی پیشکش (IPO) کے لیے کھولنے کی کوشش کی اور جرات مندانہ ترقیاتی اقدامات شروع کیے، جیسا کہ ان کا ویژن 2030 منصوبہ جو اس کے توانائی کے شعبے سے باہر کی صنعتوں کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ تاہم، ان میں سے کچھ پالیسیز بہت متحیرالعقل ثابت ہوئیں۔ اگرچہ انہوں نے امید کی تھی کہ آرامکو 2017 کے اوائل میں دنیا کا سب سے بڑا IPO شروع کرے گا، لیکن یہ اقدام 2019 کے آخر تک بار بار تاخیر کا شکار رہا
۔ ایم بی ایس کو جون 2017 میں ولی عہد مقرر کیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے دلیرانہ اہداف کے حصول میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ کچھ ہی دن بعد، ایم بی ایس نے ایران کے تئیں اس کے دوستانہ موقف کی وجہ قطر کے خلاف ایک کثیر ملکی ناکہ بندی کی قیادت کی، اگرچہ تین سال کی ناکہ بندی نے مختصر مدت میں قطر کے لئے ایک بحران پیدا ضرور کیا تھا، لیکن مملکت قطر نے،اپنی بے پناہ دولت کا استعمال کرتے ہوئے، اپنی معیشت کو اپنے ساتھی خلیجی ممالک پر انحصار سے دور کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بعض موقعوں پر ایم بی ایس کی جارحانہ پالیسیز کے خلاف، بعض ملکوں نے جو جواب دیا اور بین الاقوامی ردعمل کا باعث بنے۔ایم بی ایس نے ایک سال بعد ایک سرمایہ کاری کانفرنس میں دنیا کے شکوک و شبہات کا جواب موثر انداز دینے کے بھرپور کوشش کی تھی
ایم بی ایس کا سب سے دلیرانہ قدم، جسے سعودی نوجوان نسل میں غیر معمولی طور مقبول کیا تھا، اچانک درجنوں سعودی شہزادوں، کاروباری رہنماؤں اور اعلیٰ حکام کو سابقہ ادوار میں حکومتی، ریسورسز کی لوٹ کھسوٹ کے الزام میں گرفتار کر، ریاض کے ایک سیون اسٹار ہوٹل میں قید رکھا جانا تھا۔ چونکہ حراست میں لئے گئے افراد بشمول کنگڈم ٹاور کے مالک، میگا ارب پتی شہزادہ الولید بن طلال سمیت، ملک کی چند امیر ترین اور طاقتور ترین شخصیات تھے بہت سے مبصرین کو شبہ تھا کہ بدعنوانی کے الزام کے تحت ان بااثر شخصیات کی گرفتاری کا اصل مقصد، ایم بی ایس کا حکومتی اقتدار، اپنے ہاتھوں میں حاصل کرنا تھا۔
بہت سے بااثر لوگوں کو، بعض حکومتی عہدے اور اپنے اپنے کاروبار کے جزوی کنٹرول چھوڑنے یا اربوں ڈالر ادا کرنے کے بعد ہی رہا کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی حکومت نے، اس اقدام سے 100 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم قومی خزانے میں جمع کی تھی۔ ایم بی ایس کے اس جارحانہ اور دلیرانہ اقدام سے،بظاہر بعض حلقوں میں کافی حد تک چہ میگوئیاں ہوتی رہیں، لیکن ایم بی ایس کو بیرون ملک بڑے پیمانے پر ایک مصلح کے طور پر سراہا گیا تھا۔ مملکت میں سیاحت کو فروغ دینے کی ان کی کوششوں کے مطابق، سینما گھروں پر پابندی کو تبدیل کر دیا گیا، اور خواتین کو کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دی گئی، جس سے خواتین کو کام یا اسکول جانے یا محرم کےساتھ بغیر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اکتوبر 2018 میں جمال خاشقجی جو ایک ممتاز سعودی صحافی اور جلاوطن حکومت کے ناقد تھے، جو کبھی سعودی سفیر کے مشیر اور معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔ان کے بیرون ملک ماورائے عدالت قتل کی منصوبہ بندی کا الزام بھی، ایم بی ایس پر لگا تھا، جس سے ریاستی خود مختاری اور انسانی حقوق دونوں پر بین الاقوامی خدشات کو جنم دیا۔ شاہی خاندان نے اس واقعے کی ذمہ داری سے مسلسل انکار کیا تھا،لیکن بیرون ملک ایم بی ایس کی شبیہ کو دانستہ داغدار کیا گیا۔
مارچ 2020 میں، جیسے ہی دنیا COVID19 وبائی مرض سے لڑنے لگی، وبائی امراض اور روس کے یوکرین پر حملے سے ہونے والے عالمی معشیتی نتائج، اور تیل کی بڑھتی اور انتہا تک پہنچتی قیمتیں اور افراط زر نے دنیا بھر کی معیشت کو متاثرکیاتھا، 2022 میں ایم بی ایس کےعالمی سطح پر اثر انداز ہونے والے بعض دلیرانہ جراتمندانہ فیصلوں نے، ایم بی ایس کے قد کو، ایک عالمی معاشی کھلاڑی کے طور پر مشہور کر دیا۔ امت مسلمہ عالم میں، سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہوتے ایردگوان نے، ترکی میں ایم بی ایس کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہوئے، ایم بی ایس کی عالمی سطح کی مقبولیت میں اضافہ کردیا تھا۔
اور امریکی پریس کی مدد سے جوبائیڈن کا امریکہ سعودی تعلقات میں ایم بی ایس کو سائیڈ لائن کرنے کا پہلا عزم، اس وقت سبوتاز کیا گیا جب بائیڈن کے سعودی عرب کے ایک ہائی پروفائل دورے میں،ایم بی ایس سے آمنے سامنے ملاقات میں، امریکی صدر جوبائیڈن نے ایم بی ایس کو اتنی اہمیت نہ دی جتنی کہ دی جانی تھی اس لئے ستمبر 2022 میں ایم بی ایس کو مملکت سعودی عرب کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا، یہ عہدہ روایتی طور پر بادشاہ کے پاس ہوتا ہے جو وزراء کی کونسل کی نگرانی کرتا ہے۔ ان کی چھوڑی ہوئی وزارت دفاع کی جگہ پر ان کے چھوٹے بھائی خالد کو وزیر دفاع کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
سعودی عرب کے اہم پالیسی ساز کے طور پر اپنی اصل حیثیت کو مضبوط کرنے کے بعد، ایم بی ایس نے، بین الاقوامی سطح پر مزید خوشگوار اور مستحکم تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ سعودی عرب سمیت خطہ کی سلامتی کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے، وعدوں کی بحالی اور شہری مقاصد کے لئے جوہری پروگرام تیار کرنے میں، مدد کرنے کی مشروط ریڈ و پیماں پر،اکتوبر میں، ایم بی ایس نے مبینہ طور پر اشارہ کیا تھا
کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لائیں گے۔تاہم اس سمت امریکی سرد مہری سے، ایم بی ایس نے، اپنےملکی و عرب خطہ کے مستقبل کے پیش نظر، عالمی سطح پر معشیتی و حربی طور مضبوط ہوتے امریکی مخالف کیمپ، چین و روس کی طرف قدم بڑھا دیا۔ اس سے یہ فائیدہ ہوا کہ مارچ 2023 میں، کئی وقفاتی بات چیت کے بعد، چین نے ثالث کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے، سعودی عرب اور ایران کے اپنے دائمی اختلافات سے خطے کو تباہ کرنے والے،سالوں کے مقابلے کے بعد آپسی تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی ایران معاہدہ کروا دیا۔ جس میں تجویز کیا گیا
کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے طور پر شروع ہوئی یمن جنگ جو ایک مہنگی اور نقصان دہ دلدل میں تبدیل ہو چکی تھی سعودی عرب ایران آپسی تعلقات بحالی کے بعد ایک حد تک یمن میں خانہ جنگی کا خاتمہ شروع ہوچکا ہے۔ ایم بی ایس کی اس دور رس حکمت عملی والے انکے اس سفارتی پیش رفت نے، چین کے ساتھ سعودی تعلقات کو بھی تقویت بخشی ہے، جو کہ عالمی طاقت صاحب امریکہ پر یکطرفہ بھروسہ کرنے کے بجائے،اس کے مقابلے والی معشیتی و حربی متبادل طاقت چائینہ و روس سے قربت کے طور سعودیہ کو مل چکی ہے۔جس سے ایم بی ایس کو سوپر پاور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر اپنے معاملات حل کرنے میں انہیں مدد مل سکی ہے
۔ درحقیقت، اس معاہدے کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد، سلامتی اور جوہری ٹیکنالوجی سے متعلق امریکی وعدوں کے بدلے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پیشکش کا اعادہ کیا گیا جاچکاہے لیکن اب ایم بی ایس نے، اسرائیل سے خوشگوار سفارتی تعلقات کےلئے،سابقہ تین چوتھائی صدی سے، معلق رکھےگئے، مسئلہ فلسطین کو، انہیں آزادانہ مملکت اختیارات دینے سے جوڑ کر،ایک طرف امریکہ سے برابری کی شرط پر بات چیت کرنے کا خواہاں،خود کو ظاہر کیا ہے تو دوسری طرف امت مسلمہ عالم کے سب سے بڑے مسئلہ، فلسطین کے حل میں،اپنی سنجیدہ خواہش کا اظہار کرتے ہوئے،
اولا”خادم الحرمین شریفین بنتے بنتے، خادم البیت المقدس بننے کی راہ پر بھی، ایم بی ایس ، پیش قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ سکوت خلافت عثمانیہ ترکیہ بعد، بیت المقدس کی ولیئت و نیابت شاہ جارڈن کے پاس تھی 2023 سو سالہ عقد لوزین خاتمہ بعد، والی سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے پاس بیت المقدس کی ولایت جاتی نظر آتی تھی اب ایم بی ایس کے سعودی اسرائیل خوشگوار تعلقات کو فلسطین کی آزادی سے جوڑنے کی نسبت سے، بیت المقدس کی ولایت بھی خادم الحرمین شریفین کے پاس ہی آتی نظر آتی ہے
۔اس سے فلسطینی عوام بھی، بے انتہا خوش اور پرجوش نظر آتے ہیں کہ ایم بی ایس امت مسلمہ کی دو بڑی مساجد حرم شریف و مسجد نبوی والے دو مبارک شہر مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ کی طرح، بیت المقدس والے شہر القدس کو بھی ترقی پزیری سے ہمکنار کرتے ہوئے، زائرین حرمین شریفین مسلم امہ کو، قبلہ اولی بیت المقدس کی زیارت کے بہانے، معشیتی ترقیاتی پٹری پر گامزن کردینگے۔اور انشاءاللہ بہت جلد ایم بی ایس، اپنے تخیلاتی ترقی پزیر نیون سٹی بسانے کے عمل کے ساتھ، مسلم امہ کے قبلہ اولی بیت المقدس کو بھی آزاد کراتے ہوئے، آلقدس شہر کے تبرک سے فیض یاب ہونے کا عالم اسلام کو بخوبی موقع دینگے۔
سعودی عرب میں ایم بی ایس کے بحیثیت کراؤن پرنس اپنے والد محترم سلمان بن عبدالعزیر آل سعود کے نائب کی حیثیت مملکت کی زمام حکومت سنبھالنے کے بعد، متعدد ملٹی بلین ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہورہے ہیں اور 2030 تک یہاں مملکت کی معشیتی سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچنے والی ہیں۔ ہمارے علم میں آئے چند پروجیکٹ کو نمونتا” ہم پیش کررہے ہیں
1) 500 بلین پروجیکٹ نیوم شہر تبوک
نیوم یہ سعودی عرب کے میگا پروجیکٹس میں، سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔ ملک کے شمال مغرب تبوک میں واقع یہ 26,500 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ نیوم پروجیکٹ مستقبل کے سمارٹ سٹی کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جو صاف توانائی سے چلنے والا ہوگا اور اس میں کوئی گاڑیاں یا کاربن کا اخراج کرنے والی سواریاں نہیں ہونگی
نیوم سٹی پروجیکٹ مختلف پرکشش مقامات پر محیط $500 بلین گیگا پروجیکٹ کو، مملکت سعودیہ کے اندر ایک ملک کے طور پر سمجھا جائے گا، اس کا اپنا اقتصادی زون اور اس کا اپنا اختیار ہوگا، یعنی یہ ان قوانین سے الگ ہوگا جو باقی مملکت سعودیہ پر لاگو ہوتے ہیں۔ پراجیکٹ کے سیاحت کے سربراہ اینڈریو میک ایوائے نے، مئی میں، دی نیشنل کو بتایا کہ وہاں رہنے والے لوگوں کو سعودی نہیں کہا جائے گا بلکہ انہیں “نیومیئنز” کے لقب سے پکارا جائے گا، یہ نیوم شہر منصوبہ 2030 تک پورا ہوگا۔
اس نیوم پروجیکٹ کے ماتحت تبوک کے آس پاس کئی پروجیکٹ پر کام چل رہے ہیں جیسے
2) ٹروجینا پہاڑی سیاحتی پروجیکٹ
اس ہروجیکٹ میں سات ہزار مستقل رہائشی سہولت کار ہونگے جو سالانہ یہاں ممکنہ آنے والے 7 لاکھ ٹیورسٹ کا خیال رکھیں گے
3)سندالہ ریڈ سی لکزری آئیلینڈ پروجیکٹ، جو8 لاکھ چالیس ہزار اسکوائر میٹر پر مشتمل ہوگا
4) اوکساگون ریڈ سی عالم کا سب سے بڑا تیرتا شہر جو نیویارک سٹی سے 33 گنا بڑا ہوگا اور یہ شہر ریڈ سی میں 500 میٹر گہرائی تک تیرتا ہوگا
5) امالا ریڈ سی الٹرا لکزری ٹیورسٹ پروجیکٹ یہ منصوبہ 4ہزار مربع میل پر محیط ہوگا۔
اسکے علاوہ مملکت سعودی عرب میں بے شمار بڑے پروجیکٹ پر کام ہورہے ہیں جیسے
6) سعودی دارالحکومت ریاض کو ‘فوری طور پر پہچانے جانے والے منفرد آئکن’ نام دینے کے لیے نیا مربع پروجیکٹ – “دی مکعب”
ریاض: سعودی عرب ایک بار پھر نیو مربع ڈیولپمنٹ کمپنی کے آغاز کے ساتھ شہری ڈیزائن کی حدود کو آگے بڑھا رہا ہے، جس کا مقصد مملکت کے دار الحکومت ریاض میں دنیا کا سب سے بڑا جدید شہر تعمیر کرنا ہے۔
منصوبہ بند ترقی کا تاج مکعب ہے جس کا مطلب عربی میں کیوب ہے۔ 400 میٹر اونچائی، 400 میٹر چوڑائی اور 400 میٹر لمبائی میں محیط یہ مکعب نما عالم کا سب دھ بڑا رہائشی پروجیکٹ ہوگا جس میں ضروریات زندگی کی تمام اسائش مہیا ہونگی۔ ڈویلپرز کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچہ دنیا کی سب سے بڑی اندرون شہر کی عمارت ہوگی۔
6) شاہ سلمان گلوبل میری ٹائم انڈسٹریز کمپلیکس
کنگ سلمان گلوبل میری ٹائم انڈسٹریز کمپلیکس راس الخیر، سعودی عرب میں ایک شپ یارڈ ہے جو زیر تعمیر ہے اور اسے اگلے چند سالوں میں کھولنے کا منصوبہ ہے۔ تکمیل کے بعد، یہ دنیا کا سب سے بڑا شپ یارڈ ہوگا اور اس دنیا کے بڑے سے بڑے جہاز تیار کئے جائینگے
یہ میگا پروجیکٹ سعودی عرب کی تیل اور گیس کمپنی سعودی آرامکو اور جنوبی کوریا کی جہاز ساز کمپنی ھیونڈائے ھیوی انڈسٹریس مل کر بنا رہے ہیں
7)جعفرہ گیس پلانٹ پروجیکٹ الجوف
آرامکو نے سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں واقع جعفرہ آن شور فیلڈ سے غیر روایتی گیس پراسیس کرنے کے لیے گرین فیلڈ پلانٹ بنانے کے لیے پروجیکٹ (جفورہ گیس پلانٹ پروجیکٹ) شروع کیا ہے، جو 2023 میں شروع ہونا ہے۔ اس پروجیکٹ کے چھ اہم پیکجز ہیں۔