احتساب کا دائرہ ہر لٹیرے تک !
پا کستان میںکرپٹ اشرافیہ کا بلا امتیاز احتساب ہر حکومت کا دعویٰ اور عوام کا شدید مطالبہ رہا ہے، مگر ہر دور اقتدار میں احتساب کے نام پر پاکستانیوں کے ساتھ دھوکہ ہی ہوا ہے ،آمرانہ دور سے لے کرجمہوری ادوار تک سب نے ہی احتساب کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے اور سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جاتارہاہے، گزشتہ اتحادی حکومت نے اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیب قوانین میں ترامیم کر ڈالی تھیں،لیکن اعلی عد لیہ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سے کرپٹ اشرافیہ کے احتساب کا عمل دوبارہ شروع ہوگیاہے
،تاہم ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے خدشات کاا ظہار کیا جا رہا ہے کہ موجودہ احتسابی عمل ہر لٹیرے تک پہنچنے کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ کیلئے ہی استعمال ہو گا۔اس ملک میں اہل اقتدار کا مسئلہ کرپشن نہیں ، لیکن کرپشن کے خاتمے اور احتساب کی دہائی ضرور دی جاتی رہی ہے ،پی ڈی ایم حکومت بھی ایسے ہی بہت سے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،مگر اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میںملک و عوام کی بھلائی کا کوئی کام کیا نہ ہی ان کی تر جیحات میں عوامی مسائل شامل رہے،
البتہ اپنے خلاف بدعنوانی مقدمات سے نجات ضرور حاصل کی گئی، نیب قوانین میں ترمیم لائی گئیں،تا کہ اپنے ساتھ اپنے اتحادیوں کو بھی بچایا جاسکے ،لیکن اب نیب ترامیم کا لعدم قرار دیئے جانے کے بعد سے اتحادی قیادت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں،ایک بار پھر سامنے اور پس پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ، ایک بار پھرمخالف بیانیہ دہرایا جانے لگا ہے ۔اہل سیاست جتنا مرضی مخالف بیانیہ دہرائیں ، جتنے مر ضی اپنی پارسائی کے دعوئے کرتے رہیں ، عوام سے اب کچھ بھی پو شیدہ نہیں رہا ہے ، عوام جان چکے ہیں
کہ یہاں اقتدار میں آنے والے اور لانے والے مل کر کرپشن کی بہتی گنگا میں نہاتے رہے ہیں، یہ بوقت ضرورت مل بانٹ کرکھاتے ہیں اور وقت گزر جانے پر ایک دوسرے کے خلاف بیانیہ بناتے ہیں،یہاں ہر دور میں اہل سیاست غیر سیاسی لوگوں کی بد عنوانی کو جواز بناکر اپنی کر پشن کا راستہ نکالتے رہے اور غیر سیاسی لوگ اہل سیاست کی کرپشن جواز کے طور پر سامنے پیش کرتے آ رہے ہیں، جبکہ اس کرپشن کے دھندے میں دونوں ہی ملوث رہے اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف احتساب کے نعرے لگاتے رہتے ہیں، لیکن احتساب کبھی کسی کا ہوا ہے نہ ہی آئندہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اگر دیکھا جائے توبلاامتیاز احتساب کسی کی ایک کی تر جیحات میں شامل بھی نہیں رہا ہے ،یہاں پر احتساب کا نعرا ایک دوسرے کو بلیک میل کر نے اور عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہی لگایا جاتارہا ہے ،گزشتہ ادوار میں دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کیے اور پروپیگنڈے کے محاذ پر مقابلہ چلتا رہا کہ کون اصل میں بدعنوان ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر بدعنوانی اور کرپشن کے مقدمے بنائے، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات بنائے
، اس ایشو کو بنیاد بنا کر مقتدر حلقوں نے سیاسی انجینئرنگ کا تماشا لگایا اور ’’ہارس ٹریڈنگ ،این آر او جیسی اصطلاحات سیاسی لغت کا حصہ بنائی ہیں، اب کہا جانے لگا ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی معاشی ترقی کے ساتھ چلتی رہنی چاہئے، اس لیے کرپشن کو برداشت کیا جائے اور معاشی ترقی کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی جائے،یعنی معاشی ترقی کے نام پر بدعنوانی کو ہی سکہ رائج الوقت بنایا جارہا ہے۔
ملک میں معاشی ترقی کبھی بدعنونی کو نظرانداز کر کے کی جاسکتی ہے نہ ہی مسائل زدہ عوام کو مصائب سے نجات دلائی جاسکتی ہے ، اس کرپشن اور بدعنوانی نے ایک طرف عوام کے مصائب میں مزید اضافہ کیا ہے تودوسری جانب احتسابی عمل کو بھی مفلوج کر کے رکھا ہے ، عدالت عظمیٰ کی جانب سے ترمیم شدہ قانون کی منسوخی کے بعد نیب ایک بار پھر متحرک توہوگیا ،لیکن احتساب کادائرہ ہر اس کرپٹ تک پہنچناچاہیے
کہ جس نے پاکستان کی دولت کو بڑی بے دردی سے لوٹا ہے،اگراللہ تعالی نے ایک بار پھرپاکستان کی تعمیر نو اور عوامی مسائل کے حل کا موقع فراہم کر ہی دیا ہے تو اس بار نگران حکومت ،نیب بشمول عدالیہ اور مقتدر حلقوں کو احتسابی عمل میں غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کیساتھ بلا جواز تا خیرکے سدباب کیلئے بھی اقدامات کر نا ہوں گے تو ہی احتسابی عمل منطقی انجام تک نہ صرف پہنچ پائے گا ،بلکہ احتساب کے نام پر پولیٹیکل انجینئرنگ کا داغ دھل جائے گا