حق حکمرانی سے محروم عوام !
ملک میں آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد ایک معمہ بنا ہوا ہے،نگران حکومت صاف و شفاف انتخابات کرانے آئی ہے، لیکن نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انتخابات کا اعلان کر نا الیکشن کمیشن کا کام ہے، جبکہ الیکشن کمیشن ایک عرصے سے لیت و لعل سے ہی کام لیے جا رہا ہے ،تاہم الیکشن کمیشن پرجب مسلسل دبائو بڑھتا چلا گیاتوآئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا،
لیکن انتخابات کی تاریخ پھر بھی نہیں دی گئی ہے، اس پر جشن منایا جائے یا ماتم کیا جائے کسی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے،ملک میں ایک ایسی بے یقینی کی دھندچھائی ہے کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔اگر دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کا عندیہ دیے کر جہاں بہت سے شبہات دور کر نے کی کوشش کی ہے ،وہیں انتخابات کی تاریخ نہ دیے کر مزید کچھ خدشات بھی پیدا کر دیے ہیں ، اس اعلامیہ کاپی ڈی ایم جماعتوں کی جانب سے خیرمقدم کیاجارہا ہے ،جبکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی والے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ،پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی قبل ازوقت تحلیل پرنوے روزکے اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنے پر اصرارکررہی ہے،
جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت انتخابات کے عمل میں جانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کی متقاضی ہے،پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اعتراضات اور اپنی جگہ درست ہیں ،مگر الیکشن کمیشن دونوکے ہی تحفظات دور کرتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔الیکشن کمیشن کا کر دار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے ،ایک طرف الیکشن کمیشن کا کردار بڑے واضح طور پر سب کے سامنے آرہا ہے تو دوسری جانب اہل سیاست کی خفیہ ڈیل کے راز بھی کھلنے لگے ہیں ،آئندہ ایک مخلوط حکومت کے قیام کا عندیہ ملنے کے بعد سے ہر ایک کو ہی اقتدار میں اپنا حصہ چاہئے ، اس کیلئے تنقید اور مخالف کا خوف برقرار رکھا جائیگا،
جب تک کہ شراکت اقتدار کا کوئی فارمولا طے نا پا جائے، یہ مخالفت کے سیاسی ڈرامے اور نورا کشتی اہل سیاست کے پرانے مشغلے ہیں، یہ ایک دوسرے پر ڈرامائی تنقید میں اپنی حدود پار کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ، پیپلز پارٹی کے بیشتر احباب اور ن لیگ کے رہنمائوں کا عام موقف ہے کہ ایک طرف میاں براداران اور دوسری جانب آصف علی زر داری اور بلاول زرداری مل کر ہی سارا کھیل کھیل رہے ہیں، تاکہ آنے والے دنوں میں لولی لنگڑی جمہوریت بھی قائم رہے اور اقتدار بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے ،
یہ حصول اقتدار میں سب کچھ ہی دائو پر لگائے چلے جارہے ہیں۔قوم پہلے ہی سیاسی بحرانوں کی وجہ سے شدید ذہنی انتشار کا شکار ہے ،اوپر سے عام انتخابات کاجو کھیل کھیلا جارہا ہے ، یہ ملک و عوام کے مفاد میں ہے نہ ہی اس کے نتائج کبھی اچھے نکلیں گے، اس صورتحال مو جودہ نگران حکومت کی ذمہ داریاں اپنے جیسی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور حساس نوعیت کی ہو جاتی ہیں ، اس کا ادراک کرتے ہوئے غیرذمہ دارانہ رویئے سے گر یز کر نا چاہئے ، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو کہیں
اور دیکھنے کے بجائے مل کر بر وقت انتخابات کرانے چاہئے ،اگراس کھینچا تانی میں سیاسی کشیدگی بھی ایسے بڑھتی رہی تو اس کے منفی اثرات لامحالہ پورے سسٹم پر مرتب ہونگے اور انتخابات کا نوے روز میں انعقاد کا آئینی تقاضا پورا ہونا تو کجا‘ انتخابات کے طویل مدت تک ملتوی ہونے کے خدشات لاحق ہو جائیں گے ،اس کے بعض حلقوں کی جانب سے مسلسل اشارے بھی مل رہے ہیں۔
اس وقت اصل ضرورت انتخابات کے راستے سے انتقال اقتدار کی منزل تک پہنچنے کی ہے، اس کیلئے سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو اپنی انا کا مسئلہ بنانا چاہیے نہ ہی اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل میں انتخابات کے التو کا باعث بننا چاہیے، یہ سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا ہی نہیں ، عوام کے صبر کا بھی امتحان ہے، عوام کب تک آزمائے بدلتے چہرے خاموشی سے براشت کر تے رہیں گے، عوام کب تک حق حکمران سے محروم رہیں گے ،عوام اب بند کمروں کے فیصلوں سے تنگ آچکے ہیں ، عوام اپنے میں سے اپنی منتخب حقیقی نمائندگی چاہتے ہیں ، عوام اپنے حق رائے دہی سے خود فیصلہ کر نا چاہتے ہیں،
عوام آزمائے چہروں کے ساتھ آزمائے نظام کو بھی بدلنا چاہتے ہیں ، عوام حق حکمران چاہتے ہیں ،اگر اس بار بھی بند کمروں کے فیصلوں کے ذریعے عوام کو حق حکمرانی سے محروم رکھا گیا تو عوام اسے قبول کریں گے نہ ہی فیصلہ سازوں کو کبھی معاف کریں گے