سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات !
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کاباقاعدہ ابھی اعلان نہیں ہواکہ یہ بحث چل پڑی ہے کہ بعض پارٹیاں یا ان کے لیڈر قانونی طور پر الیکشن میں حصہ لے بھی سکیں گے یا نہیں اور ان کے بغیر جو انتخابات ہوئے وہ رائے عامہ کو کس حد تک قبول ہوں گے؟ اس سلسلے میں مسلم لیگ( ن ) کے قائداور چیئرمین پی ٹی آئی کا حوالہ خصوصی توجہ کا حامل ہے۔،میاں نواز شریف کو کچھ قانونی مسائل درپیش ہیں ،
جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات چلائے جارہے ہیں،اس پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے بغیر بھی ملک میں شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں،جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ، اس الیکشن کو اندرون و بیرون ملک قبول کیا جائے گا نہ ہی اس کے نتائج کبھی اچھے نکلیں گے۔
پا کستان میں انتخابات سے قبل مائنس پلس کا کھیل پہلی بار نہیں کھیلا جارہا ہے ، اس سے قبل ایسا ہی کھیل بے نظیر اور میان نواز شریف کے ساتھ کھیلا گیا اور اب عمران خان کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ، بے نظیر اورمیاں نواز شریف کوانتخابات سے باہر رکھنے کی سوچ جس طرح غلط تھی ،اس طرح ہی پی ٹی آئی قیادت کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کی حمایت نہیں کی جاسکتی ، تاریخ کے اوراق میں سمجھنے والوں کیلئے عبرت کا سامان مو جود ہے ،مگر تاریخ سے کوئی عبرت حاصل کر نا ہی نہیں چاہتا ہے ،
یہاں پر ایک ہی کہانی پرانے انداز میں دہرانے کی رویت ہے اور وہی پرانی کہانی ایک بار پھر نئے سکرپٹ کے ساتھ دہرائی جارہی ہے ۔ہمارے ہاں ماضی سے کسی نے کچھ سیکھا ہے نہ ہی کوئی سیکھنا چاہتا ہے ، اس لیے بار بار پرانی غلطیاں دہرانے کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ، نگران حکومت کا کام بر وقت انتخابات کرانا اور انتخابات میں ساری پار ٹیوں کو یکساں مواقع فراہم کر نا ہے ،جبکہ نگران وازیر اعظم اپنے بیانات کے ذریعے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کررہے ہیں ،
پی ٹی آئی قیادت کے خلاف مقد مات چل رہے ہیںاور اس کے فیصلے عدالتوں نے ہی کرنے ہیں،اگر کوئی ایسا فیصلہ آگیا ،جو کہ پی ٹی آئی کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا تو انتخابی ماحول پرا گندہ بھی ہوسکتا ہے،انتخابی ماحول کو ساز گار بنانے کیلئے ہی نہیں، صاف و شفاف بنانے کیلئے بھی ضروری ہے کہ ساری پارٹوں کو نہ صرف یکساں مواقع فراہم کیے جائیں ،بلکہ انتخابات کا بھی فوری اعلان کیا جائے، تاکہ بے یقینی کے چھائے سارے بادل بھی چھٹ جائیں،اس میں ہی جمہور کے ساتھ جمہوریت کی بہتری ہے۔
اس وقت ملک کے سیاسی و معاشی بد تر حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، آئے روز بڑھتی مہنگائی کے باعث عوام کا جینا مشکل ہو گیا ہے ، عوام کی بڑی تعداد بھوک و افلاس سے تنگ آکر اپنے بچے بیچنے اور خود کشیاں کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں ،جبکہ عوام کے نام نہاد نمائندگی کے دعوئیدار وں کی محاذٓرائی ہی ختم نہیں ہورہی ہے ،
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہوتا جارہا ہے ،اس وقت ملک وعوام کے نا مساعد حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرے اور ذاتی رنجشوں پر قومی مفادات کو تر جیح دے ، اہل سیاست کا اپنی ذاتیات کے بجائے ایک قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے کرنا ہو گا،کیو نکہ ایک قومی اتفاق رائے کے ایجنڈے کے تحت ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ زندگی آگے بڑھنے کا ہی نام ہے ،ماضی کے تلخ ایام کو یاد کر کے افسردہ ہو نے سے کہیں بہتر ہے
کہ حال و مستقبل کے سنہرے خوابوں میں مسرت کے لمحات تلاش کیے جائیں ،لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب مائنس پلس کی منفی سوچ بدلی جائے ، سو چنے کامقام صرف یہ ہو نا چاہئے کہ خطے کے دیگر ممالک کیسے ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں ، ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے ، اس کیلئے ایک دوسرے پر تنقید کرکے سہانے خواب اور خوبصورت بیانیہ بنا کر عام لوگوں کو بیوقوف بنا نے سے گریز کر نا ہو گا
اور اپنے محاسبے کیلئے عوام کے سامنے آنا ہو گا،سلیکشن نہیں ،الیکشن کرانا ہو گا،عوامی حق رائے دہی سے ہی ملک میں حقیقی سیاسی و معاشی استحکام لا نا ہو گا،یہ استحکام محاذآرائی سے نہیں ، مفاہمت سے ہی آئے گا،ہمارے اہل سیاست کے ساتھ اہل مقتدرہ کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مائنس پلس کی سیاست نہیں، مفاہمت کی سیاست ہی پا کستان کو آگے لے کر جاسکتی ہے