کس سے وفا کی اُمید کون وفا شعار ہے !
الیکشن کمیشن آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کرانے کا اعلان کر چکا ہے، لیکن کوئی بھی سیاستدان انتخابی میدان میں اْترنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، خاص طور پر ایسے سیاستدان جو پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور انہوں نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ہے،یہ سارے ہی عوام کے پاس جانے کا حوصلہ نہیں رکھتے، اس لیے ان کی خواہش ہے کہ انتخابات ابھی نہیں ہونے چاہئے، اس وجہ سے ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات کا اعلان توکر دیا ،لیکن کوئی تاریخ نہیں دی جارہی ہے، الیکشن کمیش کے رویئے کو دیکھتے لوگ برملا کہتے نظر آرہے ہیں کہ فی الحال جنوری کے آخر میں بھی انتخابات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس بات میں وزن ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد دور تک دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، اہل سیاست سے لے کر مقتدرہ تک سب ہی پی ٹی آئی قیادت کی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں ، پہلے آزاد عمران خان قابو میں نہیں آرہا تھا اور اب قیدی آٹھ سو چاروبال جان بنا ہوا ہے ، پی ڈی ایم قیادت سے لے کر مقتدرہ تک کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے ، اسے مائنس کر سکتے ہیں نہ ہی زیادہ دیر تک قید میں رکھ سکتے ہیں ، اس کے بغیر انتخابات کی کوئی حیثیت ہے نہ ہی انتخابات کے نتائج کو ئی مانے گا،
اس لیے ہی انتخابات میں تاخیر حربے استعمال کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو مد مقا بل لایا جارہا ہے،تاکہ قید ی آٹھ سو چارکی مقبولیت کا گر اف کم کیا جائے ،لیکن عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ انتخابات جب بھی ہوئے ملک کا بیڑا غرق کرنے والوں کے بجائے قید ی آٹھ سو چارکو ہی ووٹ دیں گے۔
یہ بات مسلم لیگ( ن)قیادت بھی بخوبی جا نتے ہیں ، اس لیے ہی واپس آنے سے پہلے گا رنٹی ما نگی جارہی ہے ، میاں نواز شریف کو جب ووزارت عظمیٰ ملنے کی گا رنٹی مل گئی تو انہوں نے واپسی کے اعلان کے ساتھ ایک دھماکا دار پریس کانفرنس بھی کر ڈالی ،اس میں انہوں نے دو جرنیلوں اور تین ججوں پر الزامات لگاتے ہوئے، انہیں قومی مجرم قرار دیا اور کہا کہ جب تک ان سب کا احتساب نہیں ہو گا ،
انہیں سخت سزا ئیںنہیں دی جائیں گی ، ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا،میاں نواز شریف کے غیر متوقع بیان نے میاں شہباز شریف کی دوڑیں لگوا دی ہیں ،میاں شہباز شریف کو لندن واپس آتے ہی فوری واپس جانا پڑا ہے ، اس اچانک واپسی کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں،اس میںسب سے اہم افواہ ہے کہ انہیںپیغام دے کر واپس بھیجا گیا کہ میاں نواز شر یف کا تازہ بیانیہ نہیں چلے گا۔
پی ڈی ایم کی ساری قیادت کے پاس سو لہ ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد اب کوئی بیا نیہ نہیں بچا ہے، یہ سولہ ماہ تک اقتدار میں رہے ،
انہوں نے خود کو بچا نے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے، یہ کس منہ سے عوام کے سامنے جاسکتے ہیں اور کو نسا بیانیہ دہراسکتے ہیں ، لیکن میاںنواز شر یف کا خیال ہے کہ ایک پٹے بیا نیہ کے ساتھ دوبارہ عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ، اس لیے اپنا وہی پرانہ مخالف بیانیہ دہرایا جارہاہے کہ جس پر ماضی میں متعدد بار یو ٹرن لے چکے ہیں ، لیکن اس پر فوری شٹ آپ کال دیے دی گئی ہے کہ اگر احتساب ہوگا تو پھرسب کاہی ہوگا اوراس میں ان کے ساتھ ان کی فیملی کے دیگر افراد بھی شامل ہو ں گے۔
نیب نے پہلے ہی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھول دیے ہیں، اس میں میاںبرادران کے خلاف مقدمات بھی شامل ہیں، جب کہ نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف واپس آئے تو اْن کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا اور قانون کہتا ہے کہ میاں نواز شریف ایک قیدی کی حیثیت سے بغرض علاج چند دن کیلئے لندن گئے تھے،لیکن چار سال بعد واپس آ رہے،اس لیے اب واپسی پر انہیں بطور قیدی ہی جیل جانا ہوگا،عوام بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ قانون سب کیلئے کتنا یکساں ہے ، یہاں پر ایک عام چور کی سنوائی نہیںہوتی اور ملک لوٹنے والوں کا پروٹو کول کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ بار بار آزمائے کو ہی آزمایا جارہا ہے ،آزمائے کی مرضی کا انتخابی میدان سجایا جارہا ہے ،اس انتخابی میدان میں کا میاب ہو بھی جائیں تو کیا ملک میں استحکام آجائے گا؟ اگرنواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن بھی گئے تو ان کا مزاج اور رویہ حسب سابق ہی رہے گا،اس رویئے کے ساتھ سیاسی ادارے مستحکم ہونگے نہ ہی عوام اور ریاست کے حالات بدل پائینگے، بلکہ مزید خراب ہی ہوں گے،
لیکن آزمائے کو ہی آزمانے کی ضد ہے ، نو از شریف کو واپس لانے کی ضد ہے ، اس ضد میں ملک و عوام کو دائو پر لگایا جارہا ہے ،یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں اوران چلے کار توسوں سے مقصدکے حصول کی خواہش رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہے ، اس مناسبت سے فرید جاوید نے کیا خوب کہا ہے کہ،کس سے وفا کی ہے اُمید کون وفا شعار ہے
اے مرے بے قر ار دل کس لیے بے قرار ہے
سن تو رہے ہیں دیر سے شور بہت بہار کا
جانے کہاں کھلے ہیں پھول جانے کہاں بہار ہے