ناکردہ گناہوں کی سزا
دنیا ئے سیاست میں جراحت کام نہیں دیتی ہے، لیکن یہاں جراحت کے نام پر انجینئرنگ آزمائی جارہی ہے ،سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک ہی بار حکمرانی میں ہرچیز درست کرنے کانام نہیں،سیاست میں جہاں تک ممکن ہو ،چلتی چیزوں کو ویسے ہی چلنے دیا جاتا ہے،جبکہ بدعنوانی جیسے کچھ مسائل کو وقت کے ساتھ برداشت کرنا اور حل کرنا پڑتا ہے ، یہ سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کسی بھی نام سے کبھی فائدہ مند نہیں ہوتی
، قوموں کو ایک طریق کار کے ذریعے ہی برے سیاستدانوں کی جگہ اچھے سیاست دانوں کو لانا پڑتا ہے، مقبول عام سیاست دانوں کو سیاسی کھیل سے باہر دھکیلنے کی کوشش کرنا اور نئے کھلاڑیوں کو سامنے لانا معاشروں کو تقسیم کردیتا ہے، جب کہ در پیش مسائل بھی حل نہیں ہوپاتے ہیں۔
پا کستانی سیاست میں بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے ، سیاست میں غیر سیاسی مداخلت اپنے زوروں پر ہے ، سیاست درست کر نے کے نام پر غیر سیاسی انجینئرنگ کی جارہی ہے ، ایک ناپسندیدہ کو پسندیدہ بنا کر لایا جارہا ہے
تو دوسرے کو باہر نکالنے کیلئے ساری حربے آزمائے جارہے ہیں ،عوام سے پو چھا جارہا ہے نہ ہی کوئی رائے لی جارہی ہے ، عوام کو حق رائے دہی سے ہی محروم رکھا جارہا ہے ، عوام کے بر وقت انتخابات کے مطالبے کو مختلف تو جہات کے ذریعے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے ،عوام آزمائے سے نجات چاہتے ہیں ،مگر آزمائے کو ہی زور زبر دستی لایا جارہا ہے ۔یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، اس سے قبل بھی عوام پر بند کمروں کے فیصلے ہی مسلط کیے جاتے رہے ہیں ،ایک بار پھر وہی پرانی رویت دہرآئی جارہی ہے
، جبکہ عوام بند کمروں کے فیصلوں سے نالاں ہیں ،عوام آزمائے کا احتساب کر نا چاہتے ہیں،ایک بارے خود فیصلہ کر نا چاہتے ہیں ، لیکن عوام کو فیصلہ سازی کا اختیار ہی نہیں دیا جارہا ہے ،جبکہ آزمائے صرف ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں کہ ’ہم نے قومی مفاد میں اپنی سیاست کو داوپر لگا یاہے،جبکہ زمینی حقائق بالکل بر عکس ہیں ، انہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں خو د کو بچانے کے ساتھ ملک کو ڈبویا اور عوام کو پے در پے مشکلات سے ہی دو چار کیا ہے ۔
اس ملک کے عوام کو بد حال کر نے میں سب کا ہی ہاتھ رہا ہے ،لیکن کوئی ایک پارٹی قیادت بھی ما ننے کو تیار نہیں ہے کہ ملک اور اس کے عوام کو اس مشکل تک پہنچانے میں جس طرح تمام سیاسی پارٹیوں نے کردار ادا کیا ہے ، اس بحران سے نکلنے کے لیے ویسے ہی وسیع تر سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے
، کیوں کہ ہر پارٹی اپنے لیڈر کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے اور شخصی سلوگن کی بنیاد پر انتخابی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے،حالانکہ کوئی پارٹی کسی ایک لیڈر کے نام کی وجہ سے کامیابی حاصل کر نے کے بعد ملکی معیشت کے علاوہ سفارت کاری اور علاقائی مسائل کا حل پیش نہیں کرسکے گی،اس ملک کے کثیر الجہت مسائل میں جو قومی اتحاد و اشتراک ضروری ہے، وہ اس وقت کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے۔
اس سنگین اور بحرانی صورت حال میں نگران قیادت بظاہر اپنے تئیں عوام کی دلجوئی کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کا طرز عمل، بیان بازی اور پھرتیاں عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے ہی مترادف ہیں، نگران سیٹ اپ کا واحد مقصدصاف و شفاف انتخابات کرانا ہے ،لیکن یہ اپنا حقیقی کردار نبھانے کے بجائے خود کو نمایاں کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں، اس سے نگران حکومت کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہوتاجارہا ہے اور یوں لگنے لگا ہے کہ اس ا قتدار پر قابض ٹولے کو کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے
،عوام آزمائے کا مخالف بیانیہ جانتے ہیں اور نگران حکومت کے زیر اثرنیب ریفرنس کے حقائق سے بھی بخوبی واقف ہیں ، عوام جان چکے ہیں کہ پاکستان میں میرٹ یا حقائق ہمیشہ برسراقتدار لوگوں کے ہی حق میں کیوں سامنے آتے ہیں اور اقتدار سے محروم پر الزامات کا سونامی کیسے نازل کیا جاتا ہے ،اس ملک میں لاڈلوں کو نیب ریفرنس کھلنے سے کوئی فرق پڑنے والا ہے نہ ہی کوئی لاڈلا شتہاری جیل جانے والا ہے ، یہاںپر اپنے لاڈلے کا استقبال ہو گا اور اسے وزارت عظمی بھی سونپی جائے گی ،جبکہ عوام کرپٹ اشرافیہ کے ناز نخرے اٹھاتے اٹھاتے نہ صرف قلاش ہو جائے گی ،بلکہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھی بھگتی رہے گی۔