سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات ! 38

عوام بارے بھی کچھ سوچا جائے !

عوام بارے بھی کچھ سوچا جائے !

ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے ،جو کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے،ایک طرف آئے روزبڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے تو دوسری جانب نگراں حکومت کے ؑعوام مخالف فیصلوں نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے ،نگران حکومت کا عوام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی عوام کے غیض و غضب کی کوئی پرواہ ہے ،نگران حکومت کے رویئے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مہنگائی کے طوفان کے ذریعے عوام کو خانہ جنگی پر اکسایا جارہا ہے،ایک طرف آئی ایم ایف کا نام لے کر عوام کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے

تو دوسری جانب سرکاری خزانے سے مراعات و سہولیات لینے والے طبقے کے مفادات پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دی جارہی ہے، اگر یہ صورتحال ایسے ہی بر قرار رہی تو ملک کے ناقابلِ تلافی نقصان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔اس وقت ملک و عوام جن مشکلات کا شکار ہیں ، اس کی ذمے داری پاکستان پر حکومت کرنے والی تمام جماعتوں پر ہی عائد ہوتی ہے، اس تباہی کے اسباب کا آغاز تو پہلے سے ہی ہو گیا تھا، لیکن گزشہ سولہ ماہ پر مشتمل اتحادی جماعتوں کی مشترکہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاہدے نے اقتصادی بحالی کے تمام راستے ہی بند کردیے ہیں،اتحادی قیادت نے پہلے خود کو بچانے کیلئے اقتدار حاصل کیا

اور بعدازاں اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی شرائط پر معاہدے کرکے ملک وقوم کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ،ایک طرف آئی ایم ایف کے بو جھ تلے عوام مرر ہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی قیادت کے چھوٹے دعوئے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں کہ ہم دوبارہ آکر عوام کو معاشی غلامی سے نجات دلائیں گے ، ہم ملک میںخوشحالی لائیں گے ۔اگر دیکھاجائے توپاکستان میں کوئی ایسی قیادت ہی نہیں ہے کہ جس کے پاس موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا کوئی راستہ یا حل تلاش کرنے کی صلاحیت پائی جائے

، اس ملک کی سیاسی قیادت کے پاس چھوٹے وعدے ،جھوٹے دلاسوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، یہ عوام کو بہلا و بہکا کر اقتدار میں آتے ہیں اور اپنے مفادات کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر چلے جاتے ہیں ، اس بات کی تصدیق پاکستان کے ایک سابق بیورو کریٹ اور نگراں صوبائی وزیر نے بھی کردی ہے کہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے، اس نے معاشی اصلاح کے تمام ہی راستے بند کر دیے ہیں،لیکن اس کے باوجود آزمائی قیادت عوام کو بہلانے اور بہکانے سے باز ہی نہیں آرہے ہیں۔
یہ بات اب ٹھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے اسیر ہیںاور اربابِ اقتدار کی بے حسی اور سفاکی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے،معیشت کی بحالی کے نام پر بھی غریب اور متوسط طبقے پر ہی سارا بوجھ ڈالا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کی سربراہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم پاکستان کی حکومت سے دولت مند اور با اثراد افراد سے ٹیکس وصول کرنے کا حکم دیتے ہیں، غریبوں اور متوسط طبقے پر بوجھ ڈالنے کا حکم نہیں دیتے،

لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ سارا بوجھ ہی عام آدمی پر ڈالا جارہا ہے ،یہ دیکھے بغیر کہ عوام سارا بوجھ کو اٹھانے کی سکت بھی رکھتے ہیں ۔یہ آئی ایم ایف کا نام لے کر اور کبھی ولڈ بنک کی آڑ میں کب تک عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہے گا ، عوام اب اشرافیہ کی عیاشیوں کا مزید بوجھ برداشت کر نے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اس لیے بہتر ہو گا کہ جلد از جلد عام انتخابات کروا کر معاملات عوامی مینڈیٹ سے وجود میں آنے والی حکومت کے سپرد کیے جائیں، تاکہ عوام کو بھی پتا ہو کہ انھوں نے کس کا گریبان پکڑ کر سوال کرنا ہے اور حکمرانوں کو احساس رہے کہ عوام کا ہاتھ ان کے گریباں تک پہنچ سکتا ہے

، اہل سیاست کواپنا طرز سیاست اور اپنی روش بدلنا ہو گی ، عوام کو اپنی سیاست کا ایندھن بنانے، الزامات در الزامات اور مقدمات در مقدمات بنانے کے بجائے حقیقی عوامی مسائل ھل کرنے اور ملک میں ریفارمز لانے کی سیاست کرنا ہو گی، حکومت میں آنے کی باریاں ضرور لگائیں، مگر اس کے ساتھ کچھ عوام کا مقدر بھی سنوار جائیں، تاکہ لوگ آپ کے محلوں اور گریبانوں تک نہ پہنچ پائیں،اہل سیاست اپنی مفاداتی سیاست کے ساتھ عوام بارے بھی کچھ سوچیں، عوام بارے سوچنا کوئی گناہ نہیںہے ،یہ مقبولیت سدا رہنی ہے نہ ہی اقتدار کو دوام مل سکتا ہے، عوامی سیاست ہی اہل سیاست کا بیڑا پار لگا سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں