تزکیہ نفس اور سیرت مصطفٰیﷺ
از کومل شہزادی
تزکیہ نفس کی تعریف :
تزکیہ نفس انسان کے نفس کو پاکیزہ کرنا ہے اگر اس میں تزکیہ نفس جیسی صفات موجود ہوں تو وہ انسان پاکیزہ ہے۔تزکیہ نفس دیکھنے میں تو ایک سادہ عمل ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن یہی دین کا مقصود ہے اور اسی عمل میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی ابدی نعمتوں کی شکل میں نکلے گا۔
جبکہ اس میں ناکامی کا انجام جہنم کے گڑھے ہیں۔اپنی ذات کو گناہوں سے پاک کرنے کو اصلاح میں تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔ تزکیہ کے دو پہلو ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس کا مطلب گناہوں کو دور کرنا اور ان کی صفائی کرنا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صفائی کے بعد نیکیوں اور اچھے اعمال کی بنیاد رکھنا اور انہیں نشونما دینا ہے۔ نفس سے مراد انسانی ذات یا شخصیت ہے۔فرمان الہی ہے:
“اسی بندگی اور تسلیم و رضا کو جا نچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زندگی و موت کا نظام پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے”۔ ( الملک 2:67 )
تزکیہ نفس کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی گندگی کو دور کرنے کے لئے کئی اہتمام کئے ۔ ایک تو نفس لوامہ یا ضمیر انسان کے اندر رکھ دیا جو ہر گناہ کرنے پر اسے کچوکے لگاتا اور احساس دلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ نے پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا تاکہ لوگوں کو گناہوں سے پاک کرسکیں ۔ جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
“(اے موسی ) تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے،اور اس سے کہہ ” کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ اپنا تزکیہ کرے “۔(النازعات ۷۹ آیات ۱۷ تا ۱۸)”
رسالت مآبﷺ کی تعلیمات سے اخذ کردہ ہے۔تزکیہ نفس تعلیمات اسلامیہ کی اصل غایت ہے جو رسول اکرمﷺ کے مذکورہ فرائض چہارگانہ کا اہم حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اس بات کا تذکرہ دو مقامات پر ملتا ہے۔ایک سورۂ آل عمران میں دوسرے سورۂ جمعہ میں۔
ترجمہ:’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ اُن میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتا ہے‘‘۔
تزکیہ نفس اورسیرت مصطفیﷺ :
تزکیہ نفس کے اسلوب اور اس کے طریق ِ کار کا علم نہ ہو تو اس وقت تک اس سلسلے میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے اس سلسلے میں ہمیں رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ، آپ ﷺ کے طریق ِ کار کو اسوہ اور نمونہ بنانا ضروری ہے۔نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو تربیت ِ نفس کا پہلو ہر جگہ نظر آئے گا۔ہم سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں اور آپ ﷺکے تربیت کے طریقوں کو ذہن نشین کریں لوگ آپ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ سمجھیں آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہےکہ ہر مسلمان اپنی زندگی کے تمام تر مراحل میں آپ کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ سمجھے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عمل پیرا ہو،کیونکہ آپ کی اتباع میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرا نی مضمر ہے،کیونکہ آپ کی اتباع و تابعداری در حقیقت اللہ کی اتباع و تابع داری ہے
،لہذا ہرکا سرسری ذکر کیا گیا ہے، خلاصہ یہ کہ ہمارے سارے دردوں کا درماں سیرتِ رسول ﷺ ہےپر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن خود سیرتِ رسولؐ سے عاری مسلمان دوسروں کو کیسے تلقین کرسکیں گے، ربیع الاول میں صرف نعرے لگانے سے محبتِ رسولؐ کا حق ادا نہیں ہوتا، بلکہ ہماری گردنوں پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو نبھانا پڑے گا، اپنے طرز عمل سے نبی ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کو دنیا کے
نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سیرت کا مطالعہ ایک اہم موضوع ہے۔جس کی رہنمائی میں انسانیت سفر دنیا وآخرت بخیروخوبی طے کرسکتی ہے۔
تزکیہ نفس کی تربیت کے لیے نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سیرت کا مطالعہ جذباتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کی ضرورت ہے۔ارشاد باری ہے:
“بے شک آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی زندگی ہی تمہارے لیے مکمل نمونہ ہے۔”
اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
تزکیہ نفس کے لیے سیرت کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔اگر رسولﷺ کی سیرت کو جان کر اس کی پیروی کریں تو انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرکے اس کی تربیت کرسکتا ہے جو اس کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔سیرت النبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا مختصر جائزہ پیش کرتی ہوں تاکہ اس سے نفس کی تربیت کرسکیں۔
تعمیر سیرت:
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سیرت پڑھ کر انسان کے کردار سے خرابیاں اور وہ اچھائی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔جتنا مطالعہ بڑھتا ہے اُتنا ہی تو اس کا اثر اس کے دل ودماغ پر صحبت نبوی کا ماحول پیدا کردیتا ہے۔جس کی وجہ سے اس کا کردار مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔
اصلاح اخلاق:
سب سے ضروری اصلاح اخلاق ہے آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سیرت کا مطالعہ انسان کو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔اس لیے رسولﷺ نے فرمایا:
” میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔”
آپ کی سیرت کے مطالعہ سے بے شمار لوگوں کے اخلاق درست ہوئے اور رویے میں بدلاو آیا۔
سرچشمہ ہدایت:
آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی زندگی پوری انسانیت کے لیے سرچشمہ ہداہت ہے۔حضرت عائشہ آپصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا:
” انکا اخلاق قرآن تھا۔”
وقار انسانیت:
آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سیرت انسانوں کے وقار کی علامت ہے کہ انسان خدا کا بندہ اور نمائندہ بن کر کس طرح پروقار زندگی بسر کرتا ہے۔
باعث عروج:
آپ کی تعلیمات انسانیت کے لیے باعاث عروج ہیں۔حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے:
” اللہ تعالیٰ اس قرآن سے کچھ قوموں کو رفعت اور بلندی عطا کرتاہےاور کچھ دوسری قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔موجودہ دور میں دیکھیں مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی تعلیمات اور قرآن سے بے اعتنائی ہے۔بقول اقبال:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
رسولﷺ کی ذات میں تمام محاسن انبیاء کی جامع تھی۔بقول اقبال:
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوہاں ہمہ دارند تو تنہا داری
تواضع انکساری:
المختصر،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے۔لیکن مقام افسوس کہ آج ہم جس طرح مطالعہ سیرت سے غفلت برت رہے ہیں اور اسکے پیغام کو فراموش کررہے ہیں وہ شاید اس دور کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے؛ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ رسول رحمتﷺ کے اخلاق و عادات کیا تھے؟سیرت النبی ﷺ کا بھر پور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اور یہی طریقہ ہمیں راہ راست پر آنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔ اور نبی کریم کی سیرت طیبہ کوپڑھنے اور اس کے ذریعے حقیقی محبت اجاگر فرمائے۔
باتیں نبی کی یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئیے گا
پڑھتے کسی کو سنئیے گا تو دیر تلک سنئیے گا