67

“ایک نشست شہر اقبال کی نوجوان لکھاری کے ساتھ”

“ایک نشست شہر اقبال کی نوجوان لکھاری کے ساتھ”

انٹرویو نگار: ناصرہ نواز
مہمان: کومل شہزادی

کالم نگار،افسانہ نگار اورسکالر کومل شہزادی صاحبہ جو صف شکن کی میزبان ہیں۔ادبی سفر کا آغاز تحقیقی مضامین اور کالم نگاری سے کیا۔تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔اور کالم مختلف قومی اخبارات میں چھپ چکے اور مزید شائع ہورہے ہیں۔علاوہ ازیں افسانے ڈائجسٹ میں لگ چکے ہیں اور چھپتے رہتے ہیں ۔کالم نگاری سے شروع ہونے والا ادبی سفر اب فکشن لکھنے تک آپہنچا ہے جو جاری وساری ہے۔بہت سی ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں۔ماہنامہ گوہر نایاب ڈائجسٹ کی سلسلہ انچارچ بھی رہ چکی ہیں۔سیالکوٹ سے نکلنے والے ادبی جریدہ کی ایڈیٹر بھی ہیں ۔آئیے آج ان سے انٹرویو میں چند سوالات پوچھتے ہیں جو مزید جاننے اور معلومات میں اضافے کا باعث بنے۔

س: اردو ادب کے نام پر جو ادب لکھا جا رہا ہے اس میں اردو تقریباً ناپیدا ہے, اسقدر ناقص اردو استعمال کی جارہی ہے کہ ڈر ہے کے جلد ہی کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو اردو, اردو نہ رہے گی..
ج:بات تو کافی حد تک درست ہے۔اس کے لیے باقاعدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے کہ بہترین ادب کو ہی شائع کیا جائے اور اُس کو ہی پروان چڑھایا جائے۔س: سوال یہ ہے کے اردو کی بقاء کے لیے کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں ؟

ج: ہمارے بچوں کو تعلیمی اداروں میں دیکھ لیجیے تلفظ درست نہیں جس پر بہت افسوس بھی ہوتا ہے۔اس کے لیے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی زبان اور ثقافت کو ترک کر کے غیر کی تقلید کریں گے تو ہم محض غلاموں میں ہی شمار ہوں گے۔

س:کیا لکھاری معاشرے میں قلم سے انقلاب لانے میں کس حد تک کامیاب ہوا؟ج: ہمارے بہت سے اچھے لکھاری ہیں جو اچھا لکھ رہے ہیں۔قلم ایک بہت پاور فل ہتھیاڑ ہے میں سمجھتی ہوں اس سے ہی خفیہ معاشرے کے مسائل عوام کے سامنے لانے میں مددگار ہوتا ہے۔لکھنے والا تو اپنا حق ادا کردیتا ہے جس سے سمجھنے والے سمجھ جائیں گے اور انقلاب تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی ذات سے ابتداء کریں تو مثبت نتائج انقلاب کی صورت سامنے آئیں گے۔

س:نجی تعلیمی ادارے معاشرے میں مثبت کردار ادا کررہے یا نہیں؟ج: نجی ادارے کم ہی ہیں جو درست معنوں میں مثبت کردار ادا کررہے ہیں زیادہ تر نسل نو میں بے حیائی کو ہی spread کررہے ہیں اور اخلاقی اقدار نیو جنریشن میں ناپیدا ہیں۔س: نوجوان نسل میں بے راہ روی میں سب سے قصور وار کون ہے؟ج: ہمارے کچھ ٹی وی ڈرامے،تعلیمی ادارے اور معاشرہ بھی اس میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

س: جدت پسندی کے عہد میں کیا اسلام کی پیروی کی جارہی ہے؟ج: بالکل!اس دنیا میں دین دار لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے ہم کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتے سب اپنے اعمال کے خود جوابدہ ہوں گے۔میرا خیال بس اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔باقی اللہ پاک کی ذات پر چھوڑ دیں۔بہت سے لوگ اسلام کی پیروی بھی کررہے ہیں یعنی دین و دنیا میں توازن رکھے ہوئے ہیں۔س: مزید معاشرے میں بہتری کے لیے مزید کیا خدمات کرنے کا عہد رکھتی ہیں؟

ج: میں خواتین کے حقوق پر کام کرنا چاہتی ہوں۔لیکن مظلوم بے بس خواتین کے لیے ناکہ لبرل قسم کی خواتین کے لیے۔س: کیا لکھاری اور لکھت میں قول وفعل کا تضاد پایا جاتا ہے؟ج: موجودہ عہد کو دیکھتے ہوئے میرے خیال میں بالکل پایا جاتا ہے۔عمل بہت کم ہے۔قول وفعل میں تضاد معاشرے کا حصہ بن چکا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔س: منٹو کو آپکی نظر میں فحش کیوں کہا جاتا ہے کیا یہ سچ کہ وہ فحش نگار تھا؟؟
ج: منٹو کو جن لوگوں نے درست طریقے سے پڑھا ہے وہ تو ایسا نہیں کہیں گے ۔لیکن جو سنی سنائی بات کریں گے یہ اُن کی رائے ہوگی۔منٹو نے تو معاشرے کی غلاظت پر لکھا جس کی سزا اُس کو عدالتوں کے چکر وں میں ملی اور اپنی آدھی عمر گنوا دی۔غلیظ پہلووں اور معاشرے کے غلیظ کرداروں پر لکھا۔یہ درست نہیں

کہ فحاشی لکھنے والے کو فحش کہا جائے یہ اُس کی ذات سے متعلق تو نہیں تھا بلکہ معاشرے کے متعلق تھا۔جو منٹو کو فحش نگار کہتے مجھے وہ کہنے والے ہی لگتے ہیں کہ اُنہوں نے اس لکھنے والے کی سائیکی کو نہیں سمجھا۔س: موجودہ دور کے اہم شعراء جو آپکو بہت پسند ہوں؟ج: مجھے بہت سے شعراء پسند ہیں جن میں امجد اسلام امجد،افتحار عارف،عباس تابش وغیرہ شامل ہیں۔امجد اسلام امجد کا ایک شعر جس نے ان کا کلام پڑھنے پر مجبور کیا:

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا میں تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں

س: اصناف سخن میں کیسے موضوعات آپکی دلچسپی کاباعث ہیں؟

ج: جن میں سماجی مسائل ،تانیثیت جیسے موضوعات ہوں۔

س: معاشرے میں عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟

ج:عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ بے حسی اور اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے ۔

س: آپ کو کونسی بات یا چیز قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے؟

ج:بہت سی وجوہات ہیں جن کا تذکرہ کرنا بھی ناممکن ہے۔معاشرے کی بے حسی،منافقانہ رویہ،اخلاقی قدروں کی ناقدری ،عورت کے حقوق کی پاسداری نہ کرنا ،مظلوم طبقہ ،سفید پوش لوگوں کے مسائل وغیرہ یہ سب وجوہات قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔

س:آپ کے فکشن میں زیادہ تر کن موضوعات پر لکھا گیا ہے؟

ج:میرے افسانوں/شارٹ سٹوریز میں زیادہ تر موضوعات جن پر قلم اٹھاتی ہوں وہ سماجی،مذہبی،ادبی اور اخلاقی اقدار سے روشناس کروانےپر مبنی ہوتے ہیں۔اور میرا پسندیدہ افسانہ ” برہنہ معاشرہ” ہے۔اپنی لکھت تو سب ہی پسند کرتے ہیں کیوں کہ سب ہی کسی نا کسی مقصد کے تحت ہی لکھا جاتا ہے۔بنا مقصد تو کوئی تحریر نہیں لکھی جاتی۔

س: آپ کن موضوعات پر زیادہ تحریر کرنا پسند کرتی ہیں اور کیوں؟

ج: زیادہ تر معاشرتی و سماجی مسائل پر،کیوں کی وجہ یہ کہ لکھنے کا مقصد بھی اصلاح اور شعور ہونا چاہیے جو دوسروں تک convey کرسکیں۔

س: کیا آج کا لکھاری اپنے قلم سے انصاف کررہا ہے؟

ج:کافی حد تک تو کامیاب ہی ہے۔

س:آپ کی بہترین تحریر یا افسانہ جو آپ کا پسندیدہ ہو اور پسند کی وجہ؟

ج: وہ تحاریر اور افسانے جو کسی ایک کے لیے بھی اصلاح کا باعث بن جائے وہی میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے۔

س: کیا موجودہ ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامے ہمارے معاشرے کے لیے بہتر ہیں ؟
ج: ہمارے ٹی وی ڈرامے بہت کم ایسے ہیں جن میں کوئی مثبت سبق دیا گیا ہوتا ہے جیسے پری زاد اور میرے پاس تم ہو ان دونوں میں مصنف نے آج کی عورت کے اندر جو لالچ پن پایا جاتا ہے اُس کو ظاہری طور پر دکھایا ہے کہ معاشرے میں محض مرد ہی نہیں عورت بھی بے وفا اور دھوکہ دے سکتی ہے۔باقی زیادہ تر ڈرامے معاشرے کی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ نوجوان نسل میں غلط رسم ورواج اور بے حیائی کو بھلاوا دے رہے ہیں۔جو معاشرے کے لیے سور بنتا جارہا ہے۔کچھ ایسے ڈرامے بھی گزرے ہیں جن میں دین سے نفرت پیدا کرنے والے تاثرات موجود تھے جو شائد کم عمر بچے دیکھ کر اُسی کو ذہن میں بیٹھا کر دین کو ایک قید سمجھ بیٹھیں۔

س: دین سے دوری کی وجہ کیا ہے ؟

ج:دین سے دوری کا باعث ہم اپنی اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال کر جدیدیت پسند ہوچکے ہیں۔یعنی اپنے اپنے اصولوں کے مطابق دین بناکر اُس پر چل رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ہمارے تعلیمی ادارے دین سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اس لیے بچوں سے پھر معاشرے میں وہی چیزیں پروموٹ ہوتی ہیں۔

س:موجودہ دور کے فکشن نگار جن سے آپ متاثر ہیں اور کیوں؟

ج: مرزا اطہر بیگ،عاصم بٹ ،شوکت صدیقی وغیرہ پسندیدہ ہیں کیونکہ ان کی تخلیقات میں معاشرے کی عکاسی ملتی ہیں۔رومانویت کی بجائے معاشرے کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔سماجی ایشو کو ڈسکس خوب کیا گیا ہے۔پسند کی وجہ یہ ہے۔

س: لکھنے کی جانب رجحان کیسے پیدا ہوا؟
ج:لکھنے کی جانب رجحان اپنے ہی شوق سے پیدا ہوا۔کسی کام کا اشتیاق ہو تو وہ آپ دل سے کرتے ہیں۔writing is my passionاس سوال کا جواب میرا خیال اس ایک جملے میں ہی ہے۔

س:کتاب سے قربت نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟

ج:کتاب سے قربت شوق کی وجہ سے ہوتی ہے یا آپ کو ماحول اپنے اردگرد ایسا ملے۔دوسرا اس کی بڑی وجہ نئی ٹیکنالوجی ہے جو وقت لوگ اس پر صرف کرتے تھے وہ اب سوشل میڈیا پر کیا جاتاہے۔ لیکن جن کی قربت ہے وہ اس جدید دور میں بھی موجود ہے۔میرا خیال اس سے بہترین آپ کا کوئی رفیق نہیں ہوسکتا۔

س:کچھ لوگوں نے لکھنے کو ذریعہ ْآمدنی بنالیا ہے کیا یہ درست ہے؟

ج: درست تو نہیں ہے لیکن ان میں وہی لوگ شامل ہیں جن کو کمانے کا لالچ ہے۔میرا خیال آمدنی کے اور بہت سے ذرائع موجود ہیں ۔لکھنے کو اس سے الگ رکھنا چاہیے۔

س:لکھاری معاشرے میں کیسی تبدیلی لاسکتاہے؟؟

ج: اچھے موضوعات پر لکھ کر جن کو قارئین پڑھ کر عمل کرسکیں اور ان کو عمل کرنے پر اکسائے۔

س:آپ نے ادب کے شعبے کا انتخاب ہی کیوں کیا؟

ج: ادب کا شعبہ اختیار پسندیدگی کے باعث کیا دوسرا حساس لوگ لٹریچر میں ہی پائے جاتے ہیں یہ میری ذاتی رائے ہے غلط بھی ہوسکتی ہے۔ادب نے ہی تو درست معنوں میں زندگی کی گہرائی کا بتایا شعور دیا لوگوں کو پہچاننا سیکھایا تہذیب و آداب سیکھائے۔

س:کیا جو لٹریچر موجودہ عہد میں لکھا جارہا وہ معاشرے میں انقلاب لانے میں مددگار ثابت ہورہا ہے؟؟
ج: جی بالکل !

س:لکھاری کی لکھت کو اکثر قارئین لکھنے والے کی ذات سے جوڑ دیتے ہیں کیا وہ اپنی ذات کی ترجمانی بھی لکھت میں کرتا ہے؟

ج: اس بات سے سو فیصد متفق ہوں۔لیکن یہ کم ظرفی کی علامت ہے۔کچھ جگہوں پر کچھ لکھاری کرتا بھی ہے لیکن سب کو اس سے جوڑنا درست نہیں۔

س:ادبی دنیا میں مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں۔۔؟

ج:ادبی حوالے سے مستقبل میں مزید لکھنے کا ہی ارادہ ہے جو مزید بہتر سے بہترین لکھنے کی جستجو ہوگی۔اور ایسا کچھ لکھوں گی جو اس دنیا سے رابطہ منقطع ہوجانے کے بعد بھی صدقہ جاریہ بنتا رہے۔باقی اللہ پاک بہتر جانتے ہیں۔

س:سر بابر الیاس صاحب کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوۓ چند تعریفی الفاظ ؟

ج:یہ بہت اچھا کام کررہے ہیں جس پر داد دینا بنتی ہیں۔ان کا دین کی طرف جو رجحان مجھے بے حد پسند آیا۔دوسرا بہت سی دینی کتب مرتب کرچکے ہیں۔جو قابل داد ہے۔

س:آپ اتنی شوخ اور خوش مزاج لڑکی ہیں مگر کون سی ایسی وجہ یا مقصد ہے جو آپ کو سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے ؟؟؟

ج: خوش مزاج ہونا بھی میرا خیال زندگی کا ایک جز ہونا چاہیے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی بھی بہت سے مسائل کھڑے کرتی ہے۔دوسرا ضروری نہیں جو چہرا مسکراتا ہے وہ باطنی بھی ویسا ہی ہو۔مسکرانے والے چہرے بہت گہرے لوگ ہوتے ہیں۔سنجیدہ موضوعات پر لکھنا یہ آپ کو اردگرد معاشرے کا ماحول مجبور کرتا ہے۔انسانیت کی کمی،بے حسی ،منافقانہ رویے،عورت کا استحصال وغیرہ سب آپ کو سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھانے پر مجبور کردیتا ہے۔

س:کومل بیٹی قلم میں بڑی طاقت ہے لیکن وقت کے تیور دیکھ کرقلم بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے۔۔ کیا آپ ان حالات میں انصاف کر پاو گی۔

ج: آپ نے بجا فرمایا ہے۔انشاءاللہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسا کچھ نہ لکھا جائے جو معاشرے کوبےراہ راوی کا شکار بنائے۔

س:تعلیم ہی واحد ذریعہ جس سے معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے لیکن تعلیم عام ہونے کے باوجود معاشرہ زوال پزیر کیوں ہو رہا ہے۔

ج:اس کی بڑی وجہ علم بے شمار ہے لیکن عمل نہیں ہے۔دوسرا اخلاقیات کو ترجیح دینے کی بجائے محض کاغذ کی ڈگریوں کو اول رکھا جاتا ہے۔

س:مطالعہ کس طرح کرنا چاہیے؟

ج: اپنے روزمرہ کا ایک وقت مختص کردیں چاہے کم ہی کیوں نا ہو۔اور اپنی پسندیدہ کتب سے شروع کریں۔

س:تحریر نگاری کا شوق کس کی توسط سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے مثال کے طور پر مجھے بڑا شوق ہے لکھنے کا ایک مصنف اور لکھاری بننا چاہتا ہوں معاشرے کی منفی اثرات اور مثبت پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے لانا چاہتا ہوں۔ تو مجھے کیا کرنا کونسا کورس اور کہاں سے ممکن ہے ؟

ج:اب تو ایسی بہت سی کتب موجود ہیں جو عام انسان سے لکھاری بننے کا سفر کیا جاسکتا ہے۔لیکن میں سمجھتی ہو یہ خدادادصلاحیت ہوتیں ہیں جو انسان میں موجود ہوتی ہیں۔دوسرا جب تک آپ اپنا مشاہدہ اور مطالعہ مضبوط نہیں بنائیں گے اس سفر میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔لکھاری بہت حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے وہ معاشرے میں ہونے والے واقعات و المناک صورت حال کو شدت سے محسوس کرتا جس کو وہ قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔باقی کورسز کروانے والوں نے اپنی اپنی دکانیں چمکائی ہیں اور کچھ نہیں۔

س:نوجوان نسل کے لیے کوئی مشورہ یا پیغام؟

ج:نوجوان نسل کے لیے مشورہ تو یہ ہی ہے کہ اپنے دین سے قربت اختیار کیجیے۔اعلی تعلیم کے ساتھ اپنے دین سے محبت کرکے اس کی پیروی بھی اختیار کیجیے تاکہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی بہتر بنائی جاسکے۔دوسرا اپنا وقت والدین کے لیے لازم مختص کیجیے یہ قیمتی خزانہ جو کہیں بھی میسر نہیں آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں