غریب کیلئے بھی اصلاحات کی طرف آئیں !
عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے بارے میں قومی اسمبلی میں منظور کردہ قانون کو بحال کردیا ہے،تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جہاںسپریم کورٹ پریکٹس اینڈر پروسیجر ایکٹ کو برقراررکھا ،وہیںاس میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے،کیونکہ اس ایکٹ کو جتنی جلدی میں بنا دیا گیا تھا ،اس بنا پر کئی سقم تھے،انہیں خامیوں کی بنا پر ہی پریکٹس اینڈ پروسیجربل چیلنج ہوا تھا،اس کیس کی پانچ سماعتیں ہوئی ہیں، لیکن ان پانچوں سماعتوں میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت سارے ہی ججز نے جس طرح پارلیمنٹ کے بارے میں الفاظ ادا کیے ہیں
،اس سے پارلیمنٹ کے ساتھ عدلیہ کی توقیر میں بھی اضافہ ہوا ہے ،اگر ہر ادارہ دوسرے کے بارے ایسے ہی جذبات رکھے اور آئین کی متعین کردہ حدود میںرہے تو یقینی طور پر اداروں کے درمیان قائم خلیج کم ہو سکے گی اور اس سے مسائل بھی بہتر انداز میں حل ہو ں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ادارے جب آئین کی متعین کردہ حدود سے تجاویز کرتے ہیں تو اداروں کے درمیان نہ صرف خلیج بڑھتی ہے ،بلکہ ٹکرائو کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے،گزشتہ کچھ عرصے سے پارلیمان اور عدلیہ کے در میاں بھی ایسا ہی کچھ دیکھاجا رہا تھا ،
لیکن موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آتے ہی معاملات نہ صرف درست کر نے کی کوشش کی ہے ، بلکہ اپنے ہی اختیارت کی اپنے ہی فیصلے کے ذریعے تقسیم بھی کردی ہے ،انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار اپنے پاس رکھنے کی بجائے خود ہی کہا ہے کہ اس پر سینئر ترین تین ججز کی مشاورت ہو گی ،لہذا تین رکنی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا ہے کہ جس کے بعد امید قائم ہوئی ہے کہ صرف ان کیسز میں ہی ازخود نوٹس لیا جائے گا، جو کہ انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
اگر دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی جہاں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیاجارہا ہے ،وہاں اسے خود مختار عدلیہ کی آزادی پر حملہ بھی قر ار دیا جارہا ہے،کیونکہ پا کستان میںزیادہ تر قانون سازی کسی اصول اور اجتماعی صلاح و فلاح کے لیے نہیں، بلکہ شخصی، اداراتی اور طبقاتی مصلحتوںکیلئے ہی کی جاتی رہی ہے،
اس لیے حکومتی وسیاسی امور کے تمام مقدمات سیاسی رنگ اختیار کرلیتے ہیںاور ان سیاسی بنیادوں پر ہی عدلیہ بھی متنازع ہوتی رہی ہے،اس کا ذکر و اعتراف محترم چیف جسٹس اور برادر ججوں نے بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ نے مارشل لائوں کو جواز عطا کیا ہے، اگر عدلیہ نے اعترافی بیان کے بعد آئندہ ایسا کچھ نہ کرنے کا عہد کرہی لیا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کے مناصب پر فائز رہنے والے قابل احترام ججوں کی جانب سے اس کا اظہار مستقبل میں ان کے فیصلوں اور اقدامات سے ہی ظاہر ہوگا۔
یہ ساری بحث ایک طرف اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ملک بدترین سیاسی و اقتصادی بحران میں مبتلا ہے اور انسانی حقوق کی پامالی طرزِ حکومت کے معمول کا حصہ بن چکی ہے،عدلت عظمیٰ نے بجا طور پر قانون سازی کے پارلیمانی اختیار کو تسلیم تو کر لیاہے،لیکن اس لیے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کے طرزِ حکمرانی کو آئین وقانون کا پابند کیسے کرے گی ،کیو نکہ ریاست کے تمام ستون ہی ہلے ہوئے ہیں،
قومی وصوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں اور آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخاب کراکے پارلیمان مکمل کرنا حکومت کا فریضہ ہے،لیکن اس معاملے میں نگران حکومت پکڑائی ہی نہیں دیے رہی ہے ، وہ کسی دوسرے ہی ایجنڈے کی تکمیل پر گامزن ہے، عدالت عظمیٰ میں کئی ایسے مقدمات موجود ہیں ،جو کہ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ سیاسی وحکومتی امور میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت اب ختم ہوگئی ہے۔
اس ملک میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کبھی ختم ہوئی نہ ہی آئندہ ہو سکے گی ، اس حقیقت سے جتنی مرضی نظریں چرائی جائیں ،جتنا مرضی ایک دوسرے کو یقین دلا یا جائے ،ایسا ممکن ہی نہیں ہے ، کیو نکہ غیر سیاسی کے ساتھ سیاسی قوتیں بھی ایسا نہیں چاہتی ہیں، سیاسی قوتیں تو غیر سیاسی قوتوں کی پشت پناہی کے بغیر چل سکتی ہیں نہ ہی کوئی قانون سازی کر سکتی ہیں،اس ضمن میں شہریوں پر فوجی عدالت میں مقدمات چلانے کے کالے قانون کے خلاف بھی مقدمہ عدالت میں موجود ہے،
کیا اسے بھی پارلیمان کا حق قرار دے کر آئینی اور قانونی سند دے دی جائے گی۔اس وقت حالات اتنے ساز گار نہیں ،جتنا کہ دکھائے جارہے ہیں، اس پس منظر میں پارلیمان کے احترام کا عدالت عظمیٰ کی جانب سے اعلان قابل اطمینان تو ہے لیکن کیا پارلیمان بھی عدالت عظمٰی کی اُمیدوں پر پورا اُ تر پائے گی ،یہ اب منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات آرڈیننس کی بنیاد پر نہ چلائے، بلکہ پارلیمنٹ میں عوای مفاد کی قانون سازی سے چلائے اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے، جو کہ آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہو
اور جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے ایک بار پھر قانون سازی میں عدلیہ کو مداخلت کا موقع دینے کی نوبت آئے، محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پارلیمان کیلئے تو بہت کچھ کر دیا ، اب اُن سے درخواست ہے کہ عام غریب کیلئے بھی عدالتی اصلاحات کی طرف آئیں،تاکہ عام آدمی کو بھی بروقت فوری انصاف ملے۔