عوام ہی قر بانی کیوں دے !
ملک میں مہنگائی کم ہو نے کانام ہی نہیں لے رہی ہے ، ایک طرف نگران حکومت نے پٹرولیم کی قیمتیں کم کر کے عوام کو رلیف دینے کی کوشش کی ہے ،مگر دوسری جانب گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سارے رلیف کو خودہی بے اثر کر دیا ہے ،اگرچہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کے سبب گیس کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے ،مگر اداروں کے خسارے کم کر نے کے بجائے ہر بار عوام کی جانب منتقل کر دینا سراسر نا انصافی ہے ،لیکن اب عوام مزید قربانی دیں گے نہ ہی مزید ناانصافی برداشت کریں گے۔
اگر دیکھا جائے تو عوام کا کوئی پرُ سان حال نہیں ہے ، عوام پریک بعد دیگرے مہنگائی کا بوجھ کم کر نے کے بجائے مزیدبڑھایا جارہا ہے ، موسم گر ماں میں بجلی ،پٹرولیم کی قیمتوں میں بتدریج اضاٖفہ کر کے عوام کا جینا عذاب کیا گیا اور اب موسم سرما سے قبل ہی گیس کی قیمتوں میں ناقابل بر داشت اضافہ کر کے عوام کا صبر آزمایا جارہا ہے ،اس ناانصافی پر عوام سراپہ احتجاج ہوتے ہیں تو گردشی قر ضوں میں اضافے کا رونا رویا جاتا ہے
،اس بار بھی وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران گیس سیکٹر کے گردشی قر ضے میں چھیالیس ارب روپے کے اضافے کا خدشہ ہے ،جبکہ مجموعی گردشی قر ضہ دو ہزار سات سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ، اس لیے ہی گیس کی قیمت سو فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکومت کی ساری نااہلیوں اور غلطیوں کی سزا عوام کو ہی بھگتنا پڑرہی ہے ،
حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث گردشی قر ضے بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی ادئیگیاں کرتے عوام کا برا حال ہورہا ہے ، لیکن ہرحکومت اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہے نہ ہی کوئی بہتر حکمت عملی وضح کی جارہی ہے ،ہر حکومت نے ایک ہی آسان راستہ تلاش کررکھا ہے کہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے ،ہر دور حکومت میں ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے اور نگران حکومت بھی وہی کچھ کررہی ہے
،نگران وزیر اعظم بھی زبانی کلامی عوام تک رلیف پہچانے کے اعلانات کرکے ڈنگ ٹپائو پرو گرام پر عمل پیراں دکھائی دیتے ہیں ۔ایک طرف نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کی ہدایات جاری کررہے ہیں تو دوسری جانب گیس کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ کر کے سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالے جارہے ہیں ،حکومت کے قول وفعل کے تذاد میں عوام پس کر رہ گئے ہیں ،حکومت کو چاہئے کہ عوام پر سارا بوجھ ڈالنے کے بجائے اپنے اخراجات میں کمی لائے، اداروں کا خسارے کم کرے ، بجلی ، گیس کی چوری روکے ،غیر پیداواری اخراجات کم کرے ،
نا دہند گان سے واجبات کی وصولی کرے ،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا ،بس عوام سے ہی سب کچھ جھین کر بے موت مرنے یا بلک چھوڑ نے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔اس ملک میں عوام کو پہلے ہی کچھ نہیں مل رہا ، رہی سہی کسرعوام پر بوجھ در بوجھ ڈال کر پوری کی جارہی ہے ، بجلی ،گیس کی لو ڈ شیڈنگ کا عذاب ہی کم نہیں تھا کہ ان کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرکے عوام سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے
،عوام کوئی کاروبار کرسکتے ہیں نہ ہی ایک گھڑی سکون سے آرام کر سکتے ہیں ،اس بے سکون زندگی کے باعث عوام میں اضطراب بڑھنے لگا ہے ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو نے لگا ہے ، اس سے پہلے کہ عوام سارے بندھن توڑ کر باہر نکل آئیں ،حکومت کو اپنے طرزحکمرانی پر نظر ثانی کر لینی چاہئے ، کیو نکہ عوام قر بانیاں دیتے تھک چکے ہیں ،اب حکمرانوں کے قر بانی دینے کی باری ہے۔
یہ وقت کی پکار ہے کہ عوام پر ہی بوجھ در بوجھ ڈالتے رہنے کے بجائے حکمران طبقہ اپنے اخراجات محدود کرے اور ادارے اپنا خسارا کم کر نے کے مروجہ اقدامات کریں، لیکن اس میں دونوہی سنجیدہ نظر نہیں آتے ہیں، حکمران جس روش پر چل رہے ہیں ،انہیں کی پیروی ادارے بھی کررہے ہیں ، حکومت میں لاتعداد وزیر ومشیر جس طرح سرکاری مراعات وسہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں،اس طرح ہی سرکاری افسران عوام سے حاصل شدہ ٹیکسوں کی رقم کے ذریعے سہولیات سے فائدہ اُٹھا ئے جارہے ہیں،
مہنگائی سے عاجز آئے عوام کے ساتھ ایسا مذاق کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، اگر عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھاجاسکتا تو ان کے زخموں پر نمک پاشی سے بھی گریز کرنا چاہئے ، کیو نکہ یہ نمک پاشیاں سب کے گلے بھی پڑ سکتی ہیں، ہر بارعوام ہی قربانیاں دیں ، سڑکوں پر ماریں کھائیں اور ناانصافیاں بر داشت کریں ،اب ایسا نہیں ہو گا، اب حکمران اور افسر شاہی طبقے کو بھی قربانی دینا ہوں گی، تاکہ ملک وعوام کو معاشی مسائل کی دلدل سے باہر نکالا جاسکے ،بصورت دیگر کچھ بچے گا نہ ہی کسی کے ہاتھ کچھ آئے گا ، سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔