عوام کو فیصلے کا اختیار دیا جائے !
ملک میں سیاسی فضابدلنے لگی ہے ،ایک طرف میاں نواز شریف آرہے ہیں تو دوسری جانب نگران تحریک انصاف قیادت سے مل رہے ہیں ،نگران حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی سے رابطہ ایک مثبت روش کا اظہارہے ،اب سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ حکومت کی جانب سے ایسی مثبت پیش رفت کا فائدہ اٹھائیں اور مشاورتی عمل میں شامل ہوجائیں، تاکہ معینہ مدت کے اندرایسے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے کہ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر شرکت کا موقع مل سکے،لیکن اس مثبت پیش رفت کے باوجودسیاسی جماعتیں بے یقینی کا ہی شکار نظر آتی ہیں ۔
در اصل ملک کے سیاسی حالات جس تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں ، اس پر سیاسی جماعتوں کی تشویش اُتنی ہی بڑھتی جارہی ہے ،اس سے قبل سیاسی جماعتیں صرف پی ٹی آئی مقبولیت سے خوف زدہ تھیں ، مگر اب ایک دوسرے سے بھی خائف ہونے لگی ہیں ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) بھی ایک دوسرے سے خائف دکھائی دیے رہی ہیں ،جبکہ مولانا فضل الرحمن اپنے الگ ہی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں
،اس سسٹم میں ہر کوئی بہتر کردار کا طلب گار ہے ، لیکن کسی ایک کا بڑ ھتا کر دار دیکھ کر دوسرا تشویش کا اظہار کررہا ہے ، یہ سب پہلے حصول مفاد میں اکٹھے ، اب حصول اقتدار میں دست گریباں اور کل ایک دوسرے کیلئے گنجائش پید۱ کرتے دکھائی دیں گے۔اہل سیاست کا سیاست میں ایسا ہی سیاسی انداز رہا ہے ،یہ اپنے مفاد میں بڑے بڑے دعوئے کرتے ہیں، بڑے بڑے بیانات دیتے ہیں ،لیکن حالات بدلتے ہی یو ٹرن لے لیتے ہیں ،اہل سیاست کے ساتھ اب ادارتی رویہ بھی ایساہی دکھائی دینے لگا ہے
، کل تک میاں نواز شریف مجرم ،مفرور ،اشتہاری تھے ، آج اُن کے واپس آنے سے قبل ہی رلیف دیے دیا گیا ہے ،یہ سب کچھ ڈیل اور ڈھیل کے تحت سرعام ہو رہا ہے اور اس پرکوئی آواز اُٹھا رہا ہے نہ ہی کوئی احتجاج کررہا ہے ،پیپلز پارٹی قیادت دبے انداز میں صرف اس لیے اعتراض کررہے ہیں کہ اُنہیں پیچھے دھکیلتے ہوئے مسلم لیگ( ن)قیادت کیلئے سیاسی میدان صاف کیا جارہا ہے ۔
یہ پا کستانی سیاست میں پہلی بار نہیں ہورہا ہے ،اس سے قبل بھی ایساہی کچھ ہوتا رہا ہے ، اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے نہ ہی آئندہ اچھے نکلیں گے ،لیکن یہاں سب نے ہی ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے
، ماضی میں پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ (ن)کی مقتدرہ مخالف سیاست کی مخالفت کرتی رہی ہے ،آصف علی زداری مقتدرہ کے ساتھ مل کر چلنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں تو آج میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں ؟یہاں پر اپنے مفاد میں مفاہمتی پالیسی پر حمایت اور دوسرے کے مفاد میں مفاہمتی پا لیسی پر اعتراض کر نے کا رواج عام ہے ، اس سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی حصول مفادمیں کوئی رکاوٹ آتی ہے ، میاں نواز شریف بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف میاں نواز شریف کو انتخابات میںلایا جارہاہے تو دوسری جانب چیئر مین پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر کیا جارہا ہے ،پی ٹی آئی قیادت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر کیسے باہر کیا جارہا ہے ،عوام سے پو شیدہ ہے نہ ہی میاں نواز شریف کا ڈیل و ڈھیل کے ذریعے آنا عوام سے ڈھکا چھپا رہا ہے ،اس کی تصدیق پیپلز پارٹی قیادت نے بھی کررہی ہے کہ میاں نواز شریف ڈیل کے تحت لایا جارہا ہے ،اس ماحول میں منعقد کروائے گئے انتخابات خلاف قاعدہ ہی تصور ہوں گے اور عوامی سطح پر قبولیت سے بھی محروم ہی رہیں گے ، اس لیے بہتر ہو گا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں اُترنے کے نہ صرف یکساں موقع فرہم کیے جائیں ،بلکہ سیاسی تنائو بھی کم کیا جائے
،تاکہ سیاسی عد م استحکام کے خاتمے کے ساتھ شفاف انتخابات کی راہ بھی ہموار ہو سکے ، ورنہ انتخابات کی شفافیت اور نگران حکومت کی غیر جانب داری پر ہی سوالات نہیں اُٹھیں گے ،بلکہ اس کے نتائج کوئی مانے گا نہ ہی آئندہ آنے والی حکومت چل پائے گی ،اب وقت آگیا ہے کہ سارے پرانے کھیل تماشے ختم کرکے انصاف پر مبنی فیصلے کا اختیار عوام کو دیا جائے ، کیو نکہ عوام ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ۔