ماں چلی گئی!
جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی
اتفاق ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ میں ایک معمرخاتون بیڈپر بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی لواحقین کی درخواست پر ایک کے بعد ایک ڈاکٹرنے اسے چیک کیا ٹیسٹ لئے گئے بی پی ،شوگر بھی نارمل۔۔مختلف ٹیسٹوں میں بھی کسی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا۔۔ ۔
ڈاکٹر صاحب !ایک بیٹے نے کہا ماں جی نے دودن سے کھاناپینا چھوڑ دیاہے ۔۔۔اس کے لہجے میں تشویش تھی
دیکھئے !ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ماں جی کو کوئی بیماری توہے نہیں۔۔ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہے اب ان کی خدمت کریں دوا کیلئے تو آپ ترددتوکررہے ہیں اب دعا بھی کریں
’’پھر بھی ۔۔ دوسرا بیٹے لرزتے ہونٹوں سے کہا۔۔ جو کچھ ہو سکتاہے وہ تو ٹریٹمنٹ کریں
ان کی موجودہ حالت میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ڈاکٹر نے صاف صاف کہہ ڈالا ہاں انہیں ڈرپ لگائی جا سکتی ہے
انجکشن بھی ساتھ ملاکر۔۔۔ شاید کچھ ریلیف مل جائے ۔۔۔ بیٹوںنے اثبات میںسرہلائے تو ڈاکٹر صاحب نے پیڈپر کچھ ادویات تحریر کردیں۔۔ ایک پوتا دوڑتا ہوا گیا دوائیاں لے کر واپس آیا سسٹرنے ڈرپ لگانے کیلئے بازو میں سوئی چبھوئی معمرخاتون کے چہرے کے کوئی تاثرات بدلے نہ بازو میں کوئی جنبش ہوئی ایک بیٹے کی آنکھوں بے ساختہ سے آنسو نکل آئے ماں شاید ہر قسم کے احساس سے عاری ہوچکی تھی۔۔۔وہ سوچنے لگا یہ کتنی بے بسی۔۔کتنی بے کسی کا عالم ہے جب ایک زندہ انسان اپنا ہاتھ بھی اٹھانے پرقادر نہ رہے یا اپنے جسم کو کسی قسم کی حرکت بھی نہ دے سکے۔۔یہ بڑھایا ،بیماری اور لاچاری بھی کیا
چیزہے شاید دنیا میں اس سے زیادہ کوئی اور چیز خوفناک نہ ہو۔انسان اپنے احساسات کھو بیٹھے یا احساس بھی ہو۔۔ دولت کے انبار بھی اس کے پاس ہوں ہر خوشی ،ہر آسائش ،ہر سہولت میسرہو لیکن جب وہ لمحہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہاہو ۔۔۔وہ خود یا ا س کے لواحقین ۔۔قیمتی سے قیمتی ادویات یا مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر اس کے لئے کچھ نہ کرسکتے ہوں کتنی بے بسی ہے سوچنے کا مقام ہے انسان کتنا مجبورہے لحظہ لحظہ موت کی جانب گامزن ۔۔۔ اپنے پیاروںکو بچانے سے قاصرہے ۔۔پھر۔انسان کیاہے ؟
دنیا میں فتنہ و فساد ،مارا ماری،جھوٹ ،فریب،لالچ کیوں؟۔۔۔ ضمیر کاسودا ، مفادات کیلئے ایمان تک بیچ دینا۔۔۔دوسروںکا حق کھاناکیونکرزیب دیتاہے سوچتے سوچتے ہم کانپ کانپ گئے۔۔۔ماںجی کی حالت دیکھ کر تمام عمر کسی پر ظلم ،زیادتی نہ کرنے کا عہدکیا ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ ماںجی کو گھرلے جائیں ان کے لئے دعا کریں ۔اللہ اللہ کرنے سے مشکلات کا خاتمہ ہوجاتاہے ماں جی اب آپ کے پاس چند دن کی مہمان ہیں۔۔ اللہ کی امانت ہے اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہیے اب میرے خیال میں انہیں دوا نہیں دعا کی ضرورت ہے
۔ بڑھاپے نے ماں کی صحت، جسمانی قوت اور توانائی چھین لی تھی چہرہ بھی آڑی ترچھی لکیروںکی اماج گاہ بن کررہ گیا تھاان کی عمر80سال سے تجاوز کر چکی تھی۔۔ماں جی گذشتہ دو ماہ سے بیڈ پر تھیں ان کی نگہداشت اور دن رات کی ضروریات کیلئے ایک خاتون کو معمورکیا گیا تھا۔۔ بہوئوں ، پوتے ،پوتیاں سب ان کی خدمت کررہے تھے ماشاء اللہ خدمت میں کوئی کثرنہیں چھوڑی کیونکہ ہماری فیملی کا اس بات پر ایمان کی حد تک اعتقاد ہے ہم اپنے والدین کی جیسی خدمت کریں گے ویسی ہی خدمت ہماری اولاد کرے گی
۔۔۔ اس بات کو دو دن گذرے ابھی ماحول میں رات کا سحر باقی تھا ابھی پو بھی نہیں پھوٹی کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی اس کی آواز کرخت کرخت لگی دل دھک دھک کرنے لگا کہ رات کے اس پہر فون۔۔الہی خیر ماڈل ٹائون سے برادرم نسیم کا فون تھا۔۔انہوںنے کہا ماں جی کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔۔۔رونا نہیں۔ محسوس ہوا ان کے اپنے ہونٹ لرز اور کانپ رہے تھے اس عالم میں بھی ان کا لہجہ بڑا شفیق سا تھا شاید بڑا ہونے کا حق ایسے ہی ادا کیا جاتاہے ۔۔۔ دل سے بے ساختہ نکلا انا للہ وانا الیہ راجعون اور آنکھیں پرنم ہوگئیںماں چلی گئی۔۔ ہم سب کو چھوڑ کر اپنے خالق ّ حقیقی سے جا ملی ۔ ماں چلی گئی
بلاشبہ ہم سب نے بھی چلے جاناہے۔۔۔ موت زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے والدین ۔۔وفاق کی علامت ہوتے ہیں بہن بھائیوں اور خاندان کو متحد رکھنے میں ان کا بڑا کردار ہوتاہے سخت گیر شخص بھی والدین بالخصوص ماں کا چہرہ دیکھ کر موم ہوجاتاہے۔۔اسی لئے توشاہ حسینؒ جیسا ولی بھی کہنے پر مجبورہوگیا۔۔۔
مائیں نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
زندگی میں قدم قدم پرماںیاد آتی ہے خاص طورپر مشکل حالات،دکھ اور درد میں بے ساختہ منہ سے ’’ ہائے ماں‘‘ نکل نکل جاتاہے ۔۔۔ تدفین کے بعد گھر ایسے لگا جیسے قبرستان ہو پہلے شفیق والد ماجد اب ہم مہربان والدہ کی چھائوں سے محروم ہوگئے یہ محرومی عمر بھر کا روگ ہے۔۔ہم سوچ میں گم تھے ایک واقعہ دل و دماغ پر حاوی ہوتا چلا گیا جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر اللہ تبارک تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ ِ طور جایا کرتے تھے وہیں سے انہیں ہدیات اور احکام ملتے تھے اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ کئی دن مغموم رہے آخرکار ایک دن موسیٰ علیہ السلام جب کوہ ِ طورپر پہنچے تو ندا آئی اے موسیٰ اب جوتے اتار کر کوہ ِ طور پر آنا
موسیٰ علیہ السلام نے حیرانگی سے کہا اے میرے رب میں تو روزانہ جوتوں سمیت یہاںآتا رہتاہوں یہی میرا معمول ہے
پھر آواز آئی موسیٰ! جوتے اتار کر آنا اب تمہارے لئے دعا کرنے والی ماں زندہ نہیں ۔۔۔یہ ہے ماں کا رتبہ ۔۔ہم دنیا داروں کو اس ہستی کی فضیلت بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو ماںکی شان سے آگاہ کردیا ماں باپ کی شان میں آخری الہامی کتاب میں کئی آیات اور حدیث ِ مبارکہ ہیں سچ ہے والدین کا حق کبھی کوئی ادانہیں کر سکتا۔۔۔ میاں محمد بخش ؒ نے کیا خوب کہا ہے
بھراں بھائیاں دے دردی ہندے
بھراں بھائیاں دیاں بھاواں
پیو سردا تاج ۔۔۔۔۔ محمد
ماواں ٹھنڈیاں ۔۔۔۔۔چھاواں ۔۔۔۔۔ یہ مشاہدہ تو اکثر لوگوں کو ہوا ہوگا گھر میں انتظار صرف ماں کرتی ہے بیوی بچوں میں محبت کی اتنی تپش نہیں ہوتی جتنی ایک ماں کے دل میں ہوتی ہے ۔۔۔ جن کے والدین ماشاء اللہ حیات ہیں وہ ان کی تابعداری کریں ان کی خوب خدمت کر کے اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ والدین کی طرف محبت سے دیکھنا بھی عبادت ہے ہم نے جوکچھ پایاہے وہ ماں باپ کے جوتوں کے صدقے پایاہے ۔اللہ تعالیٰ کاحکم ہے میری عبادت کرو اورماں باپ کی اطاعت کی جائے ۔ اور جن سے والدین جیسی نعمت چھن گئی ہے وہ ان کی درجات کی بلندی ، مغفرت اور بخشش کے لئے روزانہ دعاکیاکریں کوئی نہ کوئی قرآنی آیات پڑھ کر ان کے ایصال ِ ثواب کے لئے دعا کرتے رہیں آئیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ ہماری والدہ ماجدہ کی مغفرت کرکے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے،اور ان کوآقائے نامدار ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔(آمین)(والدہ ماجدہ کی برسی پر سرورصدیقی کا اپنی ماں کے حضور آنسوئوں بھر انذانہ)