بند گرہیں کھولنے کا وقت !
ایک بار پھر ایک ڈیل کے تحت میاں نواز شر یف کو لانچ کر نے والوں نے لا نچ کر دیا ہے ،لیکن یہ چوتھی مرتبہ لانچ کرنے والوں نے اپنی پرانی غلطی ہی دہرا ئی ہے ،اس کا اندازہ بہت جلد ہو جائے گا، کیو نکہ ایسے کردار اپنی کہانی خود ہی لکھا کرتے ہیں ،میاں نواز شریف ہمیشہ سیاسی ڈیل کے تحت لائے جاتے رہے ، اس مرتبہ بھی وہی پرانی غلطیاں دہرائیں گے،جو کہ گزشتہ تین مرتبہ کر تے چلے آرہے ہیں،
یہ ڈیل کے تحت اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے شروع میں تو سب کے ہی پسندیدہ ہوتے ہیں، لیکن اقتدار میںآنے کے کچھ عر صے بعد جب اپنارویہ بدلتے ہیں تو انہیں نظر لگ جاتی ہے ، پھرسارے ہی ان سے بدظن ہونے لگتے ہیں ، اپنا پیج بدلنے لگتے ہیں اور یوں سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے، اس مرتبہ بھی اس ڈیل کا انجام ویسا ہی ہو نے والا ہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ تین بار ناکام ہو نے والے چوتھی بار بھی کامیاب نہیں ہو پائیںگے ،اس کے باوجود ایک ضد ہے کہ آزمائے کو ہی آزمانا ہے
،انہیں ہی واپس لا نا ہے ، لہذا تین بارآزمائے کو ایک ڈیل کے تحت واپس لا کرقوم کوایک بار پھر یقین دلا جارہا ہے کہ تین مرتبہ ناکام ہونے والی شخصیت ہی ملک کی معیشت کو سدھار ے گی، ملک میںخوشحالی لائے گی ،عوام کی زندگی سنوارے گی اور وہ شخصیت میاں نواز شریف کی ہے،یہ وہی میاں نواز شریف ہیں کہ جنہیں لا نے والے ہی کہا کرتے تھے کہ اگر کھاتا ہے توملک میں لگاتا بھی ہے ،
جبکہ آصف زرداری سارا ہی کمایا باہر لے جاتا ہے، یعنی قوم کو یہ بات ہضم کروادی گئی ہے کہ قوم کی دولت کھانا جائز ہے،بس سارا جھگڑا،اکیلئے کھانے اور باہر لے جانے کا رہاہے۔اس ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ا س ملک کو سب نے مل کر ہی لوٹا ہے اور آج ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے ،اس کا کوئی ایک نہیں سب ہی ذمہ دار ہیں،مگر کوئی ذمہ داری قبول کررہا ہے نہ ہی اپنی کوتاہی مان رہا ہے ،ہر کوئی ایک دوسرے کوہی مود الزام ٹہرا ئے جارہا ہے ،یہ کھیل کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا
اور کب تک آزمائے کو ہی آزمایاجاتا رہے گا،اس سے عام آدمی کودلچسپی رہی ہے نہ ہی اس پر کوئی اعتراض ہے کہ تخت پر کسے بٹھایا جارہا ہے اور جیل میں کسے رکھا جارہا ہے،عام عوام کے ذہنوں میں تو ایک ہی سوال اُٹھتا رہتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی لڑائی میں اہل سیاست کب تک پستے رہیں گے اور عوام بے وقوف بنتے رہیں گے ،یہ میاں نواز شریف اورعمران خان کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ لڑائی ان کی ہے نہ ہی عوام کی ہے،اس لڑائی سے کسی تیسرے کو ہی فائدہ ہو رہا ہے اور وہ تیسرا جب جیسے چاہے گا
،اقتدار میں لے آئے گا اور جب جیسے چاہئے گا ، بے دخل کر دے گا۔اگر دیکھا جائے تواس ملک میں جمہوریت کے لیے اہل سیاست کبھی ناگزیر ہی نہیں رہے ہیں،یہاں پر کوئی سیاست اور جمہوریت کا چیمئین ہے نہ ہی کوئی حقیقی عوامی لیڈر بن پایا ہے ،یہ اہل سیاست سارے ہی کسی نہ کسی کے مہرے رہے ہیں،یہ ایسے ٹشو پیپر کی ماند ہیں کہ جنہیں استعمال کرکے ڈسٹ بن میں پھینک دیے جاتے ہیںاور بوقت ضرورت ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے ، ایسے مہروں کی اپنی کوئی زندگی ہوتی ہے
نہ ہی عوام کے حقیقی نمائندے بن پاتے ہیں،اہل سیاست کواپنے جلسوں میں عوام سے پو چھنے کے بجائے میثاقِ جمہوریت کے تحت مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے پو چھنا اور سو چنا چاہئے کہ ہم کہاں ،کیوں اور کیسے ہیں؟اس کا جواب اہل سیاست بخوبی جانتے ہیں ،اگر انہوں نے اب بھی جانتے بوجھتے مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش نہ کیااور اپنے اندر کی بند گرہیں نہ کھولیں تو سارے نہ صرف ٹشو پیپر کی طرح ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہیں گے ،بلکہ ایسے ہی ذلیل خوار بھی ہوتے رہیں گے ۔
اس ملک کی قیادت نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا نہ ہی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، یہاں پرایک ہی سکرپٹ بار بار دہرائے جارہے ہیں اور پرانے ہی مہرے دوبارہ آزمائے جارہے ہیں ،اس چلے کار توسوں سے کچھ ہونے والا ہے نہ ہی کچھ بدلے گا ، بلکہ مزید خراب ہی ہو گا ، اس لیے بند کمروں کی سیاست بازی کو ذرا بریک لگا کر عوام کی جانب بھی دیکھ لینا چاہئے ،انہیں بھی پوچھ لینا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟س کا آئینی طریقہ بھی موجود ہے ،لیکن آئین و قانون سے رو گردانی کی ایک ضد لگی ہے،
عوام کو جب حقیقی چنائو کا ہر موقع ملتا رہے گا تو پھر مجمع بازی خو بخوددم توڑ تی جائے گی ، غیر مقبول قیادت غیر اہم ہوتی جائے گی اور وہی قیادت عوام میں رہ جائیں گے کہ جن کا حقیقی تعلق عوام سے ہو گا