عوام کی آنکھ کاتارا !
اس وقت ملکی معیشت کے ساتھ سیاست کی فضامیں گئی خوشگوار تبدیلیوں کی نوید سنائی دیے رہی ہے ،ایک جانب سمگلنگ مافیازاور بجلی چوروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جارہا ہے اور ملک کے اندورنی و بیرونی محاذوں کو محفوظ تر بنانے کی خاطر دستا ویزات کے بغیر رہائش پذیر غیر ملکیوں کے انخلا کا عمل تیز کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کرتی سیاسی جماعیتوں کے بغلگیر ہونے اور مزحمت سے مفاہمت کی جانب بڑھنے کے واضح اشارے بھی دکھائی دیے رہا ہے،
جو کہ ملکی سیاست کیلئے انتہائی خوش آئند ہے،اگر سیاست میں مفاہمت کی کھڑکیاں ،دروازے زیادہ دیر تک بند رکھے جائیں تو حبس بڑھ جاتا ہے ،لہذا ساری کھڑکیاں دروازے کھلی رہنے چاہئے تاکہ ہوا اور آکسیجن سے رابطہ منقطع نہ ہو اور سیاسی زندگی رواں دواں رہے ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ سیاست میں بند کھڑکیاں ،دروازے کھلنے لگے ہیں، ایک جانب مولانا فضل الرحمن کی زبان سے پی ٹی آئی قیادت سے ملنے کے بعد مصالحت کے الفاظ ادا ہو رہے ہیں تو دوسری جانب میاں نواز شریف بھی واپس آکرانتقام کے بجائے مفاہمت کی بات کررہے ہیں ،
جبکہ نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں نہ صرف تمام سیاسی پارٹیاں آزادانہ حصہ لیں گی ،بلکہ انہیں برابری کی بنیاد پر مواقع بھی دیے جائیں گے ،مولانا فضل الرحمن اپنے الفا ظ کی کتنی لاج رکھتے ہیں اور میاں نواز شریف مفاہمت کی سیاست کو کتنا فروغ دیتے ہیں ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ، لیکن نگران وزیر اعظم کے بار بار کہنے کے باوجود بالکل واضح صاف دکھائی دیے رہا ہے
کہ انتخابات وقت پر ہوں گے نہ ہی سب کو یکساں پلینگ فیلڈ دی جائے گی،اس بار کے لاڈلے کا مقابلہ کسی مد مقابل سے نہیں ،بلکہ بلا مقابلہ ہی منتخب ہوتا دکھائی دیے رہا ہے۔اس ملک کی سیاست میں ایسا کھیل پہلی بار نہیں کھیلا جارہا ہے ،اس سے قبل بھی بار ہا ایسا ہی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے ، اس ملک کے اندر رہنے والے اور باہر سے آنے والے سبھی ایسے ہی کھیل کا حصہ بنتے رہے ہیں ،انہیں کھیل کی حدود کا بخوبی پتہ ہیںکہ وہ کہاں تک کھیل سکتے ہیں ، اس لیے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے
،لیکن اس بات کی ہر گز کوئی ضمانت نہیں دیے جاسکتی کہ ٹکرائو سے باز رہیں گے ،اس بارے سبھی جانتے ہیں کہ وقت گزری کیلئے مفاہمت کی باتیں کرنے والے ہی وقت گرنے پر مزحمت سے باز نہیں آتے ہیں ،لیکن اس وقت سب کی کو شش ہے کہ برے وقت سے باہر نکلا جائے اور اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھا جائے، ایک اپنے مقدمات سے جان چھڑانا چاہتا ہے تو دوسرا آئندہ اقتدار میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ چاہتا ہے ،
جبکہ تیسرا دونوں کو ہی پیچھے دھکیل کر خود آگے آنا چاہتا ہے ، ہر ایک کے اپنے مفادات کی اپنی ہی دوڑ لگی ہے ، ہر ایک کا خیال ہے کہ حصول مفاد کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد ہی دیکھاجائے گا کہ سیاست میں مفاہمت کے اونٹ کو کس کروٹ بٹھانا ہے ۔یہ اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ یہاں پر وقت بدلنے کے ساتھ لاڈلے بھی ادلتے بدلتے رہتے ہیں، یہاںآنکھوں کا تارا کب آنکھ کا شہتیر بنتا ہے، اس بارے کچھ کہنا انتہائی مشکل ہے ،یہ منظر نامہ سب نے بار ہا دیکھا اور ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں ،
کل کی آنکھ کا شہتیرآج آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے اور کل کی آنکھ کاتارا آج کا آنکھ کا شہتیر دکھائی دیتاہے ،لیکن کل کا جو غلط کیا گیا، آج پھر دہرائے جانے پر کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ماضی کے منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا،وہ ناجائز تھاتو ویسا ہی سلوک آج عمران خان کے ساتھ کیے جانے پر کیسے کوئی جمہوریت پسند حمایت کرسکتا ہے، اگر کل کچھ غلط کیا گیا تو آج ویسا ہی غلط کر کے تلافی نہیں کی جاسکتی ہے ،
اس کیلئے اپنے روئیوں کو درست کر نا ہو گا ، پرانے آزمائے ناکام سکرپٹ سے باہر نکلنا ہو گا ،حقیقی جمہوریت کے سکرپٹ پرچلناہو گا ، عوام کو بروقت حق رائے دہی کے ساتھ حق فیصلہ بھی دینا ہو گااور عوام کا ہی فیصلہ سب کو مانا ہو گا،لیکن یہ سب کچھ کررہے ہیں نہ ہی کر نا چاہتے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اہل سیاست عوام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عوام کو ہی فیصلہ سازی میں شامل کر نے سے گریزاں رہے ہیں ، اہل سیاست کا دوغلاپن اب زیادہ دیر تک چلے گا نہ ہی اب عوام پر بند کمروں کے فیصلے مسلط کیے جاسکیں گے، عوام بظاہر ویسے ہی بے شعور دکھائی دیتے ہیں ،
لیکن عوام کے اندر کا شعور بیدار ہو چکا ہے ، عوام اب اپنی رائے کا اظہار اپنے روئیوں کے ذریعے کر نے لگے ہیں ، عوام حق رائے دہی کے ساتھ حق فیصلہ سازی کا بھی مطالبہ کر نے لگے ہیں ، اس بائو کے تحت اب جبکہ ہم انتخابی مرحلے میں داخل ہورہے ہیںتو اس کا تقاضہ ہے کہ سبھی سیاستدانوں اور جماعتوں کو مساوی مواقع میسر ہوں اور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام جماعتیں مل بیٹھ کر ایک جمہوری فریم ورک پر اتفاق کریں، تاکہ اس ملک کے عوام کو انکے حق خود اختیاری کے استعمال کا بھرپور موقع مل سکے،
موجودہ سیاسی بحران کا یہی واحد حل ہے،وگرنہ ہم ایک سیاسی گڑھے سے دوسرے سیاسی گڑھے میں ایسے گرتے پڑتے رہیں گے۔یہ وقت سیاسی گڑھوں میں گرنے کا نہیں ، سیاسی گڑھوں سے باہر نکل کر آگے بڑھنے کا ہے ، اس کیلئے مزحمت کی سیاست سے نکل کر مفاہمت کی سیاست کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ، تاہم اہل سیاست زبانی کلامی مفاہمت کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ، لیکن عملی طور پر ڈیل کی سیاست کو ہی فرغ دیتے دکھائی دیتے ہیں ، اس وقت ڈیل کی سیاست ہی اپنے بام عروج پر ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک اپنی وفادریاں پیش کررہا ہے ، تاکہ اقتدار میں لانے والوں کی آنکھ کا تارا بن پائے