مزاحمت میں مفاہمت کی صدا
ملک میں عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں ، سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر تیر اندازی کر نے لگے ہیں ،تاہم پیپلز پارٹی کے تیروں کے نشانے پر سب سے زیادہ مسلم لیگ( ن)ہے اور اس تنقید میںمسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی پر مزید تیزی آگئی ہے ، پیپلز پارٹی جہاں میاں نواز شریف کومقتدرہ کے لاڈلے ہونے کے خطاب سے نواز رہی ہے وہیں پی ٹی آئی کی جانب سے روز اول سے نہ صرف مقتدرہ ،بلکہ موجودہ نگراں حکومت کا بھی منظور نظر قرار دیا جارہا ہے ،ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگی ہے ،اگر اس محاذ آرائی کے ماحول میں عام انتخابات ہوئے
تو یہ کیسے پرامن صاف و شفاف اور غیر متنازع رہ سکتے ہیں ؟اس وقت پاکستان میں نگراں حکومت قائم ہے اور اس کا کام ہی قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن کے ذریعے نوے دن کے اندر انتخابات کرانا ہے، نوے دن نومبر میں پورے ہوجائیں گے، لیکن الیکشن کمیشن اعلان کرچکا ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل میں وقت لگے گا ،اس لیے انتخابات آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں ممکن ہوسکیں گے، لیکن یہ امکان بھی قیاس آرائیوں کی زد میں ہے اور کہا جارہا ہے
کہ انتخابات شاید آئندہ سال جنوری میں بھی نہ ہوسکیں اور غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی ہوجائیں کہ جس طرح پنجاب میں انتخابات نوے دن کے بجائے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگئے اور نگراں حکومت کسی قانونی جواز کے بغیر ایک سال سے نہ صرف بیٹھی ہوئی ہے۔، بلکہ جانے کے بارے سوچ بھی نہیں رہی ہے۔
بہرکیف انتخابات آج نہیں تو کل ہونے ہی ہیں، انتخابات سے کب تک راہ فرار اختیار کی جاسکتی ہے، لیکن انتخابات جب بھی ہوں گے ،ان کے بارے میں عمومی رائے ہے کہ آئندہ انتخابات گزشتہ انتخابات کا ہی ایکشن ری پلے ہو گا، ہر انتخابات میں جو ڈرامہ اسٹیج کیا جاتا رہا ہے ، وہی ڈراما آئندہ انتخابات میں بھی اسٹیج کیا جائے گا، بس کردار مختلف ہوں گے،گزشتہ عام انتخابات میں منصوبہ سازوں کو کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا تھا اور انہوں نے بڑی آسانی سے دیگر اداروں کے تعاون سے اپنا پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچادیا تھا، لیکن اس بار اداروں کے ساتھ سیاسی سطح پر بھی شدید مزاحمت کا سامنار ہے گا۔
اس میں شک نہیں کہ نوںمئی کے واقعات نے انہیں بڑی حد تک فری ہینڈ دے دیا ہے اور وہ بڑی تیزی سے پی ٹی آئی قیادت کو مائنس کرنے اور تحریک انصاف کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں، تحریک انصاف کے تمام قائدین اور سرگرم کارکنوں کو ایک ایک کرکے نہ صرف توڑ ا جارہا ہے ، بلکہ اس میں سے ایک نہیں دو الگ الگ پارٹیاں بھی بنادی گئی ہیں، پی ٹی آئی قیادت پر مقدمات کی بھرمار ہے اور کہا جارہا ہے
کہ وہ کم از کم دس سال تک جیل میں ہی رہیں گے،یوں آئندہ انتخابات ایک ایسی فضا میں ہی کرائے جائیں گے کہ جب نواز شریف پروجیکٹ کو کوئی چیلنج درپیش نہیں رہے گااور میاں نواز شریف ڈیل کے تحت بلا مقابلہ ہی چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے۔پاکستان بظاہر ایک جمہوری ملک ہے، لیکن یہاں جمہوریت کو کبھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ہے ،اس ملک میں عدلیہ کا ایک پرشکوہ نظام بھی موجود ہے، لیکن جس طرح ایک سزا یافتہ مجرم کو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے حفاظتی ضمانت دی گئی،
اس نے عدالتی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، اس ملک میں جس کی لاٹھی، اس کی ہی بھینس کے سوا کوئی اور قانون موجود ہی نہیں ہے،اس ملک میں عام آدمی کیلئے الگ اور اشرافیہ کیلئے الگ قانون ہے ، اس امتیازانہ رویئے کو دیکھتے ہوئے آج ہر شخص کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا اس قانون کی پاسداری کے ذریعے ملک کو کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے اور کیا ہم اقوام عالم میں سر اُٹھا کر جی سکتے ہیں؟اس کا جواب نہیں میں ہے ، اس کے باوجود آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ،جمہوریت کو سر عام پا مال کیا جارہا ہے ، لیکن کوئی روک رہا ہے نہ ٹوک رہا ہے نہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے ،کیو نکہ یہاں سب ہی کے ہاتھ بندھ کر زبانوںپر تالے لگا دیئے گئے ہیں ۔
اس سے عوام میں جہاں بے چینی برھتی جارہی ہے ،وہاں نظام کا دہرا معیار بھی اشکار ہوتا جارہا ہے ،اب وقت آگیا ہے کہ مل بیٹھ کر ملک کے بگڑے سیاسی حالات کو نار مل کیا جائے ، سیاست میں کسی کو لاڈلا بنایا جائے نہ ہی کسی سے نفرت کی انتہا کی جائے ، قومی مفاد میں مفافی تلافی کے بعد در گزرکرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے ،ملک اب مزید کسی گھمبیر صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا ،کیو نکہ معاشی بد حالی کا ناگ پہلے ہی اپنا پھن پھلائے بیٹھا ہے اور اس سے عوام کی جان چھڑانا انتہائی نا گزیر ہو چکا ہے ، اس لیے تمام سٹیک ہولڈر ز کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی صدا بلند کرنا ہو گی، صاف و شفاف انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانا ہو گا ، اگر اس بار بھی ہم آزاد منصفانہ عام انتخابات کرانے میں ناکام رہے تو پھر بڑھتی انار کی گرد میں کچھ بھی نہیں بچے گا ، یہاں سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔