جلد بجے گا انتخابات کا بگل !
ملک میں عام انتخابات کا ماحول تو بنا ہے ،مگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو رہا ہے ، اس وجہ سے سیاسی جماعتیں اورعوام ابھی تک انتخابات کے بارے غیر یقینی کا شکار ہیں، ماضی میں جوسیاسی جماعتیں حکومتوں میں رہی ہیں اور جومستقل میں حکومت میں آنے کی اُمیدوار ہیں، ان کی جانب سے بھی ایسے کوئی اشارے نہیں مل رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں انتخابات کا انعقاد یقینی ہے،
انتخابات کے انعقاد کے غیر یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ اس امر کی ضمانت بھی موجود نہیں ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں گے،تاہم نگران وزیر اعظم یقین دہانیاں کروانے میں لگے ہیں کہ انتخابات نہ صرف بہت قر یب ہیں ،بلکہ آزادانہ منصفانہ اور شفاف بھی ہوں گے۔نگران حکومت کے قو ل فعل کا تزاد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے ، ایک طرف نگران وزیر اعظم انتخابات قر یب ہونے کی یقین دہانیا ں کروارہے ہیں
تو دوسری جانب نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کے اقدامات اشارہ کررہے ہیں کہ جب تک اُنہیں طاقت کے مراکز سے اشارہ نہیں ملے گا، انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جائیگا ، اگر دیکھا جائے تونگراں حکومت انتخابات کرانے کے علاوہ سارے ہی کام کررہی ہے ،حالانکہ اس کا اصل کام آزادانہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کے بعد نئی منتخب حکومت کو اقتدار سونپ دینا ہے، لیکن نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ یہ کہہ کر اقتدار سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ دینا ان کا کام نہیں ،
بس انتخابات کے قریب ہونے کے دلاسے دیتے رہنا ہی کام ہے ۔اس وقت ایک طرف نگران حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دینے کیلئے اشارے کے منتظر ہیں تو دوسری جانب اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتیں بھی اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے عوام کا سامنا کرنے سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں،یہ سارے زبانی کلامی بروقت عام انتخابات کے انعقاد کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل پیراں ہیں
اور چاہتے ہیں کہ جب تک انتخابات میں کامیابی یقینی نہ ہو جائے انتخابات نہیں ہونے چاہئے ،اس مفاد پرستی اور ہوس اقتدار نے بے اصول سیاست کو رائج کردیا ہے ،یہاں پر پہلے ایک عرصہ بحث ہوتی رہی کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کون کرے گا، یہ اختیارالیکشن کمیشن نے لے تو لیا ،مگر ابھی تک اپنا فرض ادا نہیں کررہاہے،اس صورتحال میںجمہوریت اور انتخابی عمل کی شفافیت کی ذمے داری تو ایک طرف ،پوراجمہوری عمل ہی خطرے میں پڑ تا دکھائی دیے رہا ہے۔اس ملک کی جمہوریت پہلی بار دائو پر نہیں لگ رہی ہے ، اس سے قبل بھی بارہا ایساہی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے ،اس بار بھی وہی پرانا کھیل کھیلا جارہا ہے ،
لیکن اس کھیل میں پہلے کا میابی ملی نہ ہی آئندہ کامیابی ملتی دکھائی دیتی ہے ، اس لیے بہتر ہو گا کہ آزمائے کو ہی آزمانے کے بجائے عوام کی عدالت پر فیصلہ چھوڑ دیا جائے اور مان لیاجائے کہ عوام ہی اپنے حق میںبہتر فیصلہ کر سکتے ہیں، بروقت عام انتخابات وقت کی ضرورت ہیں، یہ انتخابات کب ہونے ہیں،
یہ معاملہ اب حل ہو ہی جانا چاہئے ،نگران حکومت کو جانے اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا اشارہ مل جانا چاہئے ، اہل سیاست کو بھی چاہئے کہ بے جا بحث میں اْلجھنے کے بجائے انتخابات کی تیاری شروع کریںاور اپنے اپنے منشور تیار کرکے عوام کے سامنے رکھیں، تاکہ عوام بھی جان سکے کہ کونسی قیادت واقعی در پیش بحرانوں سے کیسے نجات دلا سکتی ہے ؟اس وقت سب سے اہم مسئلہ بر وقت عام انتخابات انعقاد ہی نہیں ،بلکہ منصفانہ شفاف انتخابات کرانا ہے، ایسے عام انتخابات کہ جن کے نتائج تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کریں
اور سیاسی عمل کو بلا رکاوٹ آگے بڑھانے میں مدد دیں ،نا کہ انتخابات مزید سیاسی انتشار کا باعث بن جائیں، ملک اب مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا، اہل ِ سیاست، سیاست کو سیاست ہی رہنے دیں، اِسے ذاتی جنگ یا دشمنی میں نہ بدلیں، گزشتہ چندبرسوں سے جاری سیاسی انتشار نے ملک کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا ہے،اس دھرنوں، الزام تراشیوں اور پراپیگنڈے کی سیاست کے بے دریغ استعمال کے علاوہ فیک نیوز بشمول جعلی آڈیوز اور ویڈیوز جیسی بعض ایسی روایات متعارف کرا دی گئی ہیں کہ جن کا خمیازہ ملک و عوام بھگت رہے ہیں اورآئندہ انتخابات میں بھی اِن کی وجہ سے بہت سے چیلنجوں کا سامنا رہے گا۔
اہل سیاست آنے والوں چیلنجز سے بھاگ سکتے ہیں نہ ہی کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں ، اس وقت سب سے بڑا چیلنج بروقت آزادانہ شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ،عوام انتظار میں ہیں کہ کب انتخابات کا بگل بجے گا اور وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، عام انتخابات کا بگل اب جلد ہی بج جانا چاہئے ،لیکن عام انتکابات کے بگل بجنے سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کو آزادمنصفانہ الیکشن کے لوازمات پر غور و خوض ضرور کر لینا چاہئے، تاکہ ملک میں پْراَمن، صاف وشفاف انتخابات کا انعقاد نہ صرف یقینی بنایا جا سکے
،بلکہ عوام کی حقیقی منتخب قیادت کو ہی اقتدار سونپاجاسکے،اس وقت پاکستان کے مسائل اِس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ انہیں حل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت تن تنہا اِن کا مقابلہ کر سکتے ہیں نہ ہی زیادہ دیرحکومت چلا سکتے ہیں،اب سب کو ہی مل جل کر آگے بڑھنا ہو گا اور در پیش مسائل کا حل نکالنا ہو گا ، بصورت دیگر سب کچھ سب کے ہی ہاتھ سے نکل جائے گااور انتخابات کا بگل بھی جلد بج نہیں پائے گا۔