40

اوورسیز پاکستانیوں کی خواہشات اور مطالبات

اوورسیز پاکستانیوں کی خواہشات اور مطالبات

ڈاکٹر صغرا صدف

پچھلے دنوں ایک کھانے کی میز پر کچھ اوورسیز سے ملاقات کا موقع ملا۔ بڑے ہی عجیب اوورسیز تھے جن سے مل کر عجب حیرانی ہوئی۔ دھیمے، سلجھے اور روایتی انداز کے رویے اوڑھے خوشی سے کِھلے جا رہے تھے۔ان میں سے کسی نے بھی ڈالر پائونڈ، اسٹرلنگ، درہم،ریال بھیجنے کے احسان کا تذکرہ کیا نہ یہ جتانے کی کوشش کی کہ آپ لوگ ہمارے بھیجے ہوئے پیسوں کی وجہ سے زندگی گزار رہے ہو،

اس لیے اس ملک کے سب فیصلے کرنے کا اختیار ہمیں ہونا چاہیے نہ انہوں نے اٗس ملک جہاں وہ رہائش پذیر ہیں کا تقابلی جائزہ پیش کرکے پاکستان کے اداروں اور لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔نہ مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف زہر اگلا، نہ کسی شخصیت کا منفی انداز میں پروپیگنڈا کیا اور نہ کسی کو اوتار ثابت کیا۔ یہ سب پرجوش لوگ کچھ بے قرار ضرور تھے۔ان کی بے قراری پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالنے کی تمنا سے بھری تھی۔ وہ ان تمام اقدامات میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے تھے جن کی وجہ سے پاکستان اپنا کھویا ہوا

وقار اور مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔وہ پاکستان کو ایک ایسا عظیم ملک بن کر ابھرتے دیکھنا چاہتے تھے جس کے تمام ادارے آئین اور ضابطوں کے پابند ہوں اور اپنی اپنی حدود میں رہ کر آگے بڑھیں۔ جمہوری نظام کی مستحکم پٹری پر جمہوریت کی گاڑی ہمیشہ رواں رہے۔ دو تین سال بعد نئی جماعتیں بنانے کے تجربے اور مستحکم حکومت کو ہٹانے کے حربے دفن کر دئیے جائیں۔ تقریبا چالیس ممالک میں مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والے یہ لوگ میاں نواز شریف کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ انہیں یقین ہے

کہ ان کا رہنما ملک سے وفادار ہے اور اس کے اقدامات ملک کو معاشی استحکام بخشیں گے۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ تھی کہ اُن کی اپنے قائد سے تمام تر محبت وطن کی محبت کی آئینہ دار تھی۔ یقینا کسی جمہوری رہنما سے ایسی محبت ہی قابل تعریف ہوتی ہے۔ کسی فرد سے محبت اگر اپنی زمین اپنے لوگوں اور اپنے اداروں کے خلاف جانے پر مجبور کر دے تو وہ محبت نہیں بغاوت اور سازش ہوتی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں نے پنجاب کے بہت ہی متحرک سیاستدان رانا مشہود احمد خان کو خاص طور پر مدعو کیا تھا جو کئی بار وزیر تعلیم اور کھیل رہتے ہوئے پنجاب کی یوتھ کو متحرک کرنے میں بڑاکردار ادا کر کے خود کو منوا چکے۔ ان کی شخصیت بڑی بہار رنگ ہے، ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے ہیں،

پروٹوکول کے ہر ضابطے سے بے نیاز رہتے ہیں، ہر وقت اپنے حلقے کے لوگوں کی مسائل کو حل کرنے اور دکھ سکھ میں شرکت کو ضروری خیال کرتے ہیں، یہ وہ سیاست دان ہیں جو پانچ سال کے بعد اپنے لوگوں کے پاس نہیں جاتے بلکہ ان کے ہر دن کے کسی نہ کسی پہر میں حلقے کا کوئی دورہ،کسی تقریب میں شرکت یا کسی وفد یا فرد سے کوئی ملاقات شامل ہوتی ہے۔ یقینا اوورسیز کے لیے بھی رانا مشہود اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔گجرانوالہ سے میر ابرار نے اس کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ راشد نصر اللہ اور راشد ہاشمی کو اعزازات سے نوازا گیا۔

وہاں قمر زمان بھٹی بھی تھے، ٹویٹر پر دھوم مچانے والے پرویز سندیلہ بھی۔ اور ان سب کے سردار بیرسٹر امجد ملک جو انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو یکجا کرنے میں ان کی خاص کاوش شامل رہتی ہے۔بیرسٹر امجد ملک نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کچھ اقدامات کا ذکر کیا، کہ جن پر عمل ہو جائے تو یہ ملک کے لئے بھی مفید ہو گا۔ اوورسیز کو ذمہ داری اور اعزاز کے ذریعے ملک کی خوشحالی کے لئے تگ و دو پر زیادہ فعال اور متحرک کیا جاسکتا ہے ۔

تجارت، برآمدات بڑھانے، روزگار کے مواقع تلاشنے اور خارجہ کے معاملات میں وہ بہتر معاون ہو سکتے ہیں کہ وہ ہی اصل سفیر اور نمائندے ہیں جن کی حرکت اور رویے دوسروں کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ اوورسیز پارلیمان میں دس سیٹیوں کے متمنی ہیں جس میں تمام خطوں کی نمائندگی ہو۔ ان کی جائیدادوں پر قبضے کے خاتمے کیلئے خصوصی عدالتیں یا کوئی بینچ بنایا جائے۔ اوورسیز کے لئے کام کرنے والے اداروں میں انھیں نمائندگی دی جائے۔ سرمایہ کاری میں بہتری کیلئے ون ونڈو آپریشن اور ڈسپلن تیز تر ہو، ڈسپیوٹ ریزولوشن سنٹر بنائے جائیں۔ بچوں اور بوڑھوں کیلئے ٹریول اور ٹورزم میں مراعات ہونی چاہیے، گلف میں بسنے والوں کیلئے نیکوپ کارڈ کی ضرورت کا خاتمہ۔ روزگار کیلئے کوٹہ سسٹم اور امیج بلڈنگ کیلئے اقدامات وغیرہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں