مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس !
اس وقت ملک ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ جس کی کوئی سمت ہے نہ ہی کوئی منزل نظر آتی ہے،پوری دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کسی نہ کسی نظام کے تحت چلتے ہیں، لیکن اس ملک میں ایک بوسیدہ نظام ہے اور اس بوسیدہ نظام پر بھی کوئی چلنے کیلئے تیار نہیں ہے،اس لیے مختلف طاقتور حلقوں کے طاقتور افراد مختلف سمتوں میں ہی ہانکتے رہتے ہیں،ائے کاش کہ اس ملک میں رہنے والے ایک بار فیصلہ کر لیں
کہ ہم ایک جمہوری ملک بن کر ہی رہیں گے اور اس ملک میں جمہوری حکومتیں ہی بنیں گی،اگر ایک بار سب نے مل کر فیصلہ کرلیا تو یقین کریں کہ جمہوریت کا تسلسل ہی اس ملک کی خوشحالی اور روشن مستقبل کا سبب بنے گا۔
اس ملک کے اہل سیاست زبانی کلامی جمہوریت کی باتیں بہت کرتے ہیں ، ملک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی باتیں بھی بت ہوتی رہتی ہیں ،لیکن اپنی پارٹی میں جمہوریت لاتے ہیں نہ ہی آزادانہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں ، اہل سیاست عوام کی عدالت میں جانے کے بجائے طاقتور حلقوں کی خشنودی زیادہ پسند کرتے ہیں اور اُن کی ہی رضامندی میں لگے رہتے ہیں ،
اہل سیاست نے مان لیا ہے کہ اقتدار میں آنے کا راستہ عوام سے ہو کر نہیں ،طاقتور حلقوں سے ہو کر گزرتا ہے ، اگرطاقتور حلقوں کا ہاتھ سر پر رہے تو اقتدار میں اور ہاتھ سر سے ہٹ جائے تو اقتدار سے باہر ہو جاتے ہیں ۔
ہر دور اقتدار میں طاقتور حلقوں نے اپنا دست شفقت کہتے ہوئے سر پر رکھا ہے کہ ہماری حمایت ہر حکومت کے ساتھ ہے ، اس بار پہلے سے ہی بڑے حلقوں نے میاں نواز شریف کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے ، اس دست شفقت کا ہی اثر ہے کہ میاں نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم تھے، لیکن عدالتوں نے کم و بیش ان کی تمام ہی سزائیں معاف کردی ہیں اور انہیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پاکستان واپس بلالیا گیا ہے،اس وقت مقتدرہ سمجھتی ہے کہ وہی عمران خان کا توڑ ثابت ہوسکتے ہیں،
لیکن لاہور میں ان کے پہلے ہی جلسے نے ان کی مقبولیت کا پول کھول دیا ہے، اس جلسے میں پورے ملک سے لوگوں کو اُجرت پر لایا گیا، اُنہیں طے کردہ اُجرت ملی کہ نہیں، یہ الگ معاملہ ہے، لیکن اس لالچ میں لوگ آئے ضرور کہ انہیں پیسے ملیں گے، البتہ بریانی سے ان کی تواضع ضرور کی گئی اور اتنی دیگیں پکائی گئیں کہ کھانے والے کم پڑ گئے،اس جلسے میں بظاہر ایک شاندار رش تھا، لیکن اس میں لاہوریوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے۔
اگر دیکھاجائے تو میاں نوزاز شر یف کے لاہور نے میاں نواز شریف کے جلسے کا بائیکاٹ کیا ہے، لیکن اس بائیکاٹ سے کیا فرق پڑتا ہے،اگر پورے ملک کے عوام بھی نواز شریف کا بائیکاٹ کردیں تو بھی مقتدرہ انہیں ہی وزیراعظم بنا کر رہے گی، کیونکہ اُن کے نزدیک نوزشریف ہی واحد آپشن ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سوال زیر گردش ہے کہ کیا میاںنواز شریف ایک بار پھر لانے والوں کے ساتھ نباہ کرپائیں گے
، انہوں نے تو واپس آنے سے قبل ہی سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا مطالبہ کردیا تھا، یہ اللہ بھلا کرے میاں شہباز شریف کا کہ جنہوں نے بھاگم بھاگ لندن پہنچ کر بڑے بھائی کو سمجھا بجھا کر اپنا بیانیہ بدلنے پر آمادہ کرلیا اگرچہ اب کہا جا رہاہے کہ انہوں نے سابق جرنیلوں اور ججوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے، لیکن انتقام کی جو آگ اُن کے اندر بھڑک رہی ہے، وہ قتدار کی آنچ سے شعلہ جوالہ بھی بن سکتی ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف خطرات سے کھیلنے کے عادی رہے ہیں اور ان کا ٹریک ریکارڈ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اُن کی کبھی طاقتو ور حلقوں سے نہیں بنی تو اس بار کیسے بنے گی،اس لیے کہا جارہا ہے کہ یہ رومانس ایک ڈیڑھ سال سے زیادہ طول عرصہ نہیں کھینچا جا سکتا ، جبکہ میاں شہباز شر یف یقین دہانیاں کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ اس بار معاملہ کچھ الگ ہے ، اس بار طاقتور حلقوں سے خوب بنے گی اور مسلم لیگ( ن) بڑے اچھے انداز میں اپنی مدت پوری کرے گی ،میاں شہباز کی ساری یقین دہانیاں اپنی جگہ ،مگر یہ سب کچھ اقتدار ملنے کے بعد کتنی دیر تک اچھاہی رہے گا ،اس بارے یقین سے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔
اس سب سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرادیے جائیںاور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب طاقتور حلقے کسی ایک جماعت کی سرپرستی نہ کریں اور عوام کو بلا امتیاز آزادانہ اظہار رائے کاحق دیا جائے ، ان انتخابات میں اُن لوگوں کو بھی حصہ لینے کی اجازت دی جائے ،جو کہ نوںمئی کے واقعات میں ملوث بتائے جاتے ہیں اور بقول صدر عارف علوی ان کے معاملے میں عفوو درگزر کی پالیسی اپنائی جائے، ان لوگوں کے ساتھ جتنی سختی ہوسکتی تھی، ہوچکی ، ان سے جتنا سیاسی انتقام لینا تھا ، وہ بھی لیا جاچکا ہے ،اب ایک وارننگ کے ساتھ ان کی جان بخشی کر دینے میں ہی بہتری ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نوں مئی ایک بڑا سانحہ ہے ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، لیکن نوں مئی واقعہ کی آڑ میں سیاست کرنے سے گریز ہی کر نا چاہئے ، نوں مئی میں ملوث لوگوں کے خلاف سزا و جزاء کا معاملہ رکھتے ہوئے در گزر ی کا رویہ بھی اپنانا چاہئے ،یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اہل سیاست کے ساتھ مقتدرہ بھی مفاہمت کو فروغ دیتے ہوئے آگے بڑھ جائے ، مقتدرہ سیاست میں مختلف تجربات کرتی چلی آرہی ہے، مِٹی کے گھروندوں سے ہی سوندھا رومانس کرتی آرہی ہے، اس بار کچھ مختلف تجربہ کرکے دیکھ لے،عوام کا ساتھ دیے کر دیکھ لے ، انشااللہ اس کے مثبت اثرات ہی برآمد ہوں گے ،اس بارملک نہ صرف اپنے درست ٹریک پر چڑھ جائے گا ،بلکہ اس سے مقتدر حلقوں کے وقار میں اضافہ ہی ہوگا