کس دوراہے پر آگئے ہم !
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی سرگرمیاں اگلے مرحلے میں داخل ہو نے لگی ہیں،ایک طرف سیاسی پارٹیوں میں انتخابی اتحاد ہورہے ہیں تو دوسری جانب پس پردہ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے ، مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں ،جبکہ پی ٹی آئی اپنی بقا کی جنگ لڑتے دکھائی دیے رہی ہے ، اس صورتحال میںتحریک انصاف کو آئندہ انتخابات کیلئے ایک ایسے رہنما کی اشد ضرورت ہے، جو کہ مقتدرہ سے لڑائی کے بجائے درپیش مشکلات سے باہر نکالے، اس کیلئے پی ٹی آئی قیادت کو خود ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
اگر دیکھا جائے تواس وقت عام انتخابات کے حوالے سے سب سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا پی ٹی آئی کوہی کرنا پڑ رہا ہے کہ جس کے چیئرمین سمیت تمام اہم عہدے داران جیل میں ہیں اور اس پارٹی کو نوںمئی کے واقعات کے تناظر میں چھوڑنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں،اس کے باوجود پی ٹی آئی قیادت نہ صرف مشکل حالات کا مقابلہبڑی ثابت قدمی سے کررہی ہے ،بلکہ عام انتخابات میں لیول پلئینگ فیلڈ کا سب سے بڑا تقاضہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے رہی ہے، اس حوالے سے صدر مملکت نے بھی نگران وزیر اعظم کو خط لکھا ہے ، نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن باور کرارہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں اور انتخاب لڑنے کے اہل ہے، اس پارٹی کے امیدواران اپنی ہی پارٹی کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف نگران وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن باور کروارہے ہیں کہ پی ٹی آئی عام انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کو مائنس کر نے کی تماتر کائوشیں زورں پر جاری ہیں ، پی ٹی آئی کی ساری قیادت کے خلاف کریک ڈائون روکنے کانام ہی نہیں لے رہا ہے ، صدر مملکت سے لے کر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری تک سارے ہی افہام تفہیم کی باتیں تو بہت کررہے ہیں ،
عام انتخابات میں برابر ی کی بنیاد پر یکساں مواقع دینے کے دعوئے بھی کیے جارہے ہیں ،مگراس کے عملی طور اقدامات ہوتے کہیں دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ، اس قول فعل کے تذاد کے ساتھ عام انتخابات کی کوئی ساکھ ہو گی نہ ہی سیاسی استحکام آئے گا،بلکہ حالات مزید خراب ہونے کے خدشات بڑھتے دکھائی دیے رہے ہیں ۔
اس وقت ملک انتہائی مشکل حالات سے گزررہا ہے اور اہل سیاست کو ہوس اقتدار اور حصول اقتدار میں کچھ دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے، یہ وقت ذاتیات کا ہے نہ ہی مخالف کو راستے سے ہٹانے کا ہے ، بلکہ قومی مفاد کو اہمیت دینے کاہے اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاست کے بجائے ریاست کوترجیح دی جائے ،
ریاست کے بارے مل بیٹھ کر سوچا جائے ، یہ ریاست ہے تو سب کچھ ہے ،یہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ،اس کیلئے ساری ہی جماعتوں کا آپس میں مل کر اصولوں کے تحت چلنا ہوگا اور مل کر ہی ملک سنبھالنا ہو گا، عوام کو فیصلے کا اختیار دینا ہو گا ، عوام آزادانہ منصفانہ انتخابات کے ذریعے جسے بھی منتخب کریں، عوامی فیصلہ قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا ۔اس حوالے سے دیکھا جائے
تومسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی قیادت پختہ سوچ کے حامل سینئر سیاست دان ہیں، جو کہ بدلتے حالات کی نذاکت کے ساتھ عوام کی بدلتی سوچ کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں، اس لیے ایک بار پھر مقتدرہ کے ایک پیج کو عوامی حمائت سمجھنے کی غلطی نہیں کر نی چاہئے ، اہل سیاست کی جانب سے عوامی حمائت کے لئے جس مفاہمانہ پالیسی اور اقدامات کا اظہار کیا گیا، اس کو ہی عملی جامہ پہنانا چاہیے ،ملک میں بڑھتی غیر یقینی سیاسی صورتحال کا جلد از جلد خاتمہ ہو نا چاہئے ، اس سے بہتر ہمارے مفاد میں کچھ بھی نہیں ہے ،ملک ایک نازک دوراہے سے گزررہا ہے ،اس نازک دوراہے سے ہی قو م کو ہمیشہ ڈریا جاتا رہا ہے
، لیکن خدا ہی جانتا ہے کہ کس دوراہے پر آگئے ہیں، ہم واقعی ایک نازک دوراہے سے گزر رہے ہیں ،اس نازک دوہرے سے سلامتی کے ساتھ کیسے گزرنا ہے ،یہ اہل قیادت بخوبی جانتے ہیں اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزر سکتے ہیں،اگر ملک کی ساری ہی قیادت نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل کر اس نازک دوراہے کو عبورا کر لیا تو ترقی و خوشحالی کی منزل آسان ورنہ اپنا وجود برقرار رکھنا بھی انتہائی مشکل ہو جائے گا۔