روح پر طمانچہ
ازقلم:-عشرت فاطمہ، بنگلور
میری چھ سالہ بیٹی کھیلتی ہوئی چار پانچ سیڑھیوں سے نیچے گر گئی جس سے اُس کو گھٹنے کہنی اور ماتھے پر چوٹ لگ گئی وہیں کچھ دوری پر میری تیرہ سالہ بیٹی بیٹھی ہوئی تھی اور وہ سب کچھ دیکھ کر صرف افسوس سے سر ہلا کر خاموش بیٹھی رہی۔مجھے بڑا غصّہ آیا، میں نے تیز آواز میں اُس سے کہا “کیسی بڑی بہن ہو شرم آنی چاہیئے تمہیں تمہاری چھوٹی بہن گرگئ اور تم صوفے پر آرام سے بیٹھی دیکھ رہی ہو”
اُس نے کہا “مجھے افسوس ہے کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئی بُرا بھی لگا کے اس کو چوٹ آئی، کیا اتنا کافی نہیں ہے؟ اگر آپ کو اتنا کافی نہیں لگ رہا ہے تو ٹھیک ہے میں اپنی اِنسٹا سٹوری میں لکھ دوں گی کے آج میری چھوٹی بہن کے ساتھ ایسا ہو گیا، اب آپ خوش ہیں؟”اس کا یہ انداز یہ الفاظ سن کر میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا،
میں شاک کی کیفیت میں کھڑی اُس کا منہ تکتی رہ گئی مجھے اس طرح کھڑا دیکھ کر اس نے بیزاری سے کہا “امّی اب آپ اُوور ری ایکٹ (over react) کر رہی ہیں ہم تو لوگوں کی *موت* پر ایسے ہی کرتے ہیں یہ تو صرف چار پانچ سیڑھیوں سے گری ہے “۔میں نے کہا کیا بَک رہی ہو تم؟
میرے یہ کہنے پر وُہ بھڑک اُٹھی اُس نے میرا ہی سیل فون اٹھا کر میرے منہ کے سامنے کیا اور کہا “یہ آپ کا فون ہے
یہ اپکا واٹس ایپ سٹیٹس ہے آپ پچھلے آٹھ دن سے واٹس ایپ پر فلسطین کے سپورٹ میں اپنا سٹیٹس ڈال رہی ہیں مرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے، زخمی لوگ، گرتی عمارتیں، لاشوں کے انبار، یہی آپ نے دوسرے معاملات میں بھی کیا یوکرین کے وقت، ہاتھرس کے وقت، روھنگیا کے وقت، لنچگ میں مارے جانے والوں کے لیے۔۔بابا نے بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا، میرے سکول کے کچھ ٹیچرز بھی ایسا ہی کرتے ہیں،
جمعہ کے خطبہ میں بھی کچھ اس طرح کا ذکر کر دیتے ہیں، جب آپ سارے بڑے لوگ ماں باپ، ٹیچرز، مدرسے کے مولانا، میرے کلاس فیلوز کے والدین، مسجد کے امام و خطیب، مذہبی سکالرز وغیرہ وغیرہ سارے دوسروں کے مرنے پر، لُٹنے پر، اُن کے گھروں سے نکالے جانے پر، اِسی انداز میں اِسی طریقہ پر ری ایکٹ کر سکتے ہیں تو پھر میرا ری ایکشن غلط کیسے ہوگیا؟ بچے کریں تو غلط سینسلیس ہے؟ اور بڑے کریں تو حق ہے صحیح ہے؟؟؟امیّ یہ بڑا ہی دوغلہ پن ہے منافقت ہے
اور آپ کو حیرت مجھ پر ہورہی ہے!!!
اُس کا ایک ایک جملہ میرے چودہ طبق روشن کر نے کے لئے کافی تھا ۔۔ ایسا لگا یہ میرے منہ پر نہیں میری روح پر طمانچہ تھا۔۔میں اپنی تیرہ سالہ بیٹی سے نظر نہیں ملا سکی اسکا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ تھا۔۔اور سچائی دودھاری تلوار کی طرح ہر جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہوئی نازل ہوتی ہے۔ہم اپنے عمل سے اپنے بچوں کو یہی کچھ سکھا رہے ہیں
کہ اپنی تکلیف پر اسٹیانڈ لیں اور دوسروں کی تکلیف پر افسوس کریں کافی ہے ، تھوڑا سا زبانی جمع خرچ یا پھر دو منٹ کا مون دھارن کریں یا اس سے کچھ زیادہ کرنا ہے تو پروٹسٹ یا ریالی نکالیں بیانر لیکر کسی چوراہے پر کچھ دیر کھڑے ہوجایں بس آپ اور اپکا ضمیر مطمئن ہوجاے گا
ہم یہی سمجھتے ہیں ۔۔۔
مگر کیا یہی حقیقت ہے؟
کیا یہی عدل ہے؟
کیا یہی انصاف ہے؟
کوئی راہ چلتا میرے گھر پر قابض ہوجاۓ اور سارے ثبوت رکھنے والے اور حقیقت جاننے والے میرے حق میں گواہی دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیں تو؟
میرے گھر سے میری بیٹی اغوا ہوجاۓ اور میرے پڑوسی، میرے رشتے دار، دوست احباب صرف افسوس کا اظہار کریں اور اپنے اپنے گھر کی سیکیورٹی بڑھالیں تو؟ کیا میرا نقصان پورا ہوجاۓ گا؟
کیا میرا گھر محفوظ رہے گا؟
آہ ۔۔۔۔۔۔ بعض دفعہ بچے ایسے سوال کھڑے کرتے ہیں کے ہم ضمیر کی عدالت میں مجرم ثابت ہو جاتے ہیں ۔۔
اور ضمیر کے جرم کی سزا سے رہائی سواۓ عادلانہ تبدیلی کے اور کیا ہوسکتی ہے! عادلانہ تبدیلی ہی دنیا و آخرت کی ذلت اور عذاب سے رہائی کا سامان ہے