مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 40

شفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں !

شفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں !

ملک میں عام انتخابات میں کم و بیش تین ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی خدشات ، سیاسی خلفشار اور شکایات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو وفاق اور پنجاب کی نگراں حکومتوں سے شکایت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے سہولت کار بنی ہوئی ہیں اورا ن کی غیر جانبداری قائم نہیں رہی ہے، جبکہ نگران حکومت شکایات کا ازالہ کر نے کے بجائے اپنی وضاحتیں پیش کر نے میں لگے ہیں،

اس صورتحال میں آزادانہ شفاف انتخابات کا انعقادممکن ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔اس ملک میں سارے ہی آزادانہ شفاف انتخابات کرانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر اس کیلئے کوئی عملی طور پر اقدام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، الیکشن کمیشن سے لے کر نگران حکومت تک جب ایک ہی جماعت کیلئے آسانیاں پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں تو شفاف انتخابات کے انعقاد کاڈھونگ کھل کر سامنے آجاتا ہے، اس پر شرم سار ہونے کے بجائے وضاحت دی جارہی ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ( ن) کے ساتھ جو زیادتی کی گئی ،

اس کا اب ازالہ کیا جارہا ہے ،اگر مسلم لیگ( ن) کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیئے کہ اب وقت اور حالات بدل جانے سے تحریک انصاف کے ساتھ بھی وہی زیادتی کی جائے، ایک غلطی کا ازالہ دوسری غلطی سے نہیں کیا جانا چاہیئے، لیکن یہاں پر پرانی غلطیاں دہرانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔
اس بارے کون نہیں جانتا ہے کہ اس ملک میں جب کوئی سیاسی پارٹی مقتدرہ کی نظروں سے گر جائے تو اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟پی ٹی آئی بھی بے حیثیت ہو کر عتاب کا شکار ہے ،اس میں ایک طرف توڑ پھوڑ کی جارہی ہے تو دوسری جانب اسے پابندیوں میں جکڑا جارہا ہے ، پی ٹی آئی کو کہیں جلسہ کر نے کی اجازت ہے نہ ہی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی جارہی ہے ،سیاسی قیادت سے لے کر پارٹی کار کنان تک کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے ، یک بعد دیگر پر یس کا نفرنس کرواکر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیاجارہا ہے ،

پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کا ایک ہی رٹا رٹیا موقف ہے کہ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی پا لیسی سے متفق نہیں ہیں،یہ ملکی مفاد میں بہتر نہیں ہے ۔بلا شبہ ریاستی اداروں سے ٹکرائو کی پا لیسی منفی سر گرمی ہے ،اس سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے ، لیکن اس کا احساس اب ہی کیوں ہورہا ہے اور اس احساس کے ار تکاب کو مانا بھی جارہا ہے ،لیکن یہ معافی تلافی صرف پارٹی چھوڑنے والوں کے بجائے سب کیلئے ہی ہو نی چاہئے اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی آزادانہ اجازت بھی دینی چاہئے ،اگر ایسا نہ کیا گیا اور ایک ہی پارٹی کی پشت پناہی کی جاتی رہی تو اس سے الیکشن کی شفایت کے ساتھ غیر جانبداری پربھی حرف آئے گا اور اس انتخابات کے نتائج کو بھی کوئی نہیں مانے گا ۔
اس حوالے سے صدر عارف علوی نے بھی نگران وزیر اعظم کو ایک خط کے ذریعے یادہانی کرائی ہے ،اس پر نگران وزیراعطم نے غور خوض کرنے کے بجائے اپنے نگران وفاقی وزیر اطلاعات سے پریس کانفرنس کروا دی ہے ، نگران وفاقی وزیر اطلاعات مر تضی سو لنگی کا بھی شاہ کا وفادار بنتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر پورے ملک کے صدر ہیں ،وہ کسی ایک جماعت کے صدر نہیں ،وہ اپنے آئینی عہدے کی عزت کا خیال رکھیں ،کسی ایک جماعت کے صدر بننے سے صدر کی عزت پر حرف آتا ہے ، اور ہم چاہتے ہیں

کہ وہ حرف نہ ہی آئے ، وفاقی وزیر اطلاعات نے صدر مملکت کو یادہانی تو کرادی ،مگر خودایک آئنی صدر کیلئے درست الفاظ کا چنائو کر نا بھول گئے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ آئینی صدر کو کسی ایک سیاسی جماعت کا طرف دار نہیں ہونا چاہئے ، لیکن اگر کسی سیاسی جماعت کو اس کے آئینی و قانونی اور جمہوری عمل سے زور زبر دستی روکنے کی کوشش کی جارہی ہے تو صدر کی دخل اندازی بے جا قرار نہیں دی جاسکتی ، نگران حکومت کا کام ایک پارٹی بن کر سیاسی معاملات اُلجھنا نہیں ،بلکہ ایمانداری سے شفاف الیکشن کے عمل میں الیکشن کمیشن کی معاونت کر نا ہے ، لیکن نگران حکومت اپنا اصل کام کر نے کے بجائے کسی دوسرے ایجنڈے کی تکمیل میں ہی لگی ہوئی ہے ۔
یہ وقت ایجنڈا سازی کا ہے نہ ہی کسی ا یجنڈے کی تکمیل کا ہے،یہ وقت عوام کی عدالت میں جانے کا ہے ، اس وقت سیاسی نظام پر اثر رکھنے والی تمام قوتوںکوسنجیدگی کے ساتھ کوشش کر نی چاہیئے کہ عام انتخابات ہر قسم کے شکوک و شبہات سے نہ صرف مبرا ہوں ،بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ان میں شرکت کے یکساں مواقع بھی حاصل ہوں، سیاسی جماعتوں کی جانب سے نتائج تسلیم کئے جانے کی جمہوری روایت قائم ہو جائے اورحکومتوں کو غیر سیاسی وغیر ضروری طور پر ختم کرنے کی روش کا خاتمہ ہوجائے

اور سب سے اہم ہے کہ : تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ ء کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز رکھیں،اگر ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنا لیا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ملک میں ایک غیر متنازع اور مستحکم حکومت کے قیام کی جانب قدم بڑھا لئے گئے ہیں، جو کہ ریاست کی سلامتی اور عوامی فلاح کے لئے بہت ضروری ہیں، اگر ایسا نہ کیا گیا اور ایسے ہی سب کچھ چلتا رہا تو کچھ بچے گا نہ ہی کوئی کچھ بچا پائے گا، یہاں پرسب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں