ٹیکس اصلا حات سے معاشی استحکام !
پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت کے سبب ہر حکومت کو ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے،بعدازاں اس قرض کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے یا پھر اس کے لئے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقات پر عائد مختلف ٹیکسز کی شرح میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے،یہ ایک ایسا دائرہ ہے، جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس میں پھنسے ہوئے ٹیکس دہندگان کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ اب ان میں مزید ٹیکس ادا کرنے کی سکت ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ہر دو حکومت میں نئے ٹیکس نہ لگانے اور نئے ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے کی باتیں تو بہت کی جاتی رہی ہیں ،مگر اس پرہر دور حکومت میں عملی اقدام کر نے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت عوام پر ہی بوجھ در بوجھ ہی ڈالا جاتا رہا ہے ،اس نگران حکومت کے آنے کے بعد خیال کیا جارہا تھاکہ عوام مخالف فیصلوں کے تحت نہ صرف ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا ،بلکہ نئے ٹیکس بھی لگائے جائیں گے ، لیکن نگران وزیر خزانہ کے بیان نے سب کی ہی حیرت زدہ کردیا ہے کہ حکومت کفایت شعاری پر عمل کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کرکے خسارے پر قابو پائے گی اورنئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے ۔
نگران حکومت کی نئے ٹیکس نہ لگانے کی پیش رفت خوش آئند ہے ، عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں ، اگر ان پر مزید نئے ٹیکسوں کا بوکجھ ڈالا جاتا تو ایک طرف عوام بل بلا اُٹھتے تو دوسری جانب اس کے منفی اثرات معیشت کیلئے بھی بوجھل ہونے تھے ،اُوپر سے انتخابات کے دنوں میں نئے ٹیکس نہ صرف عوامی تشویش میں اضافہ کرتے ،بلکہ اس کے منفی اثرات بھی انتخابات میں سامنے آنے تھے ، نگران حکومت نئے ٹیکس نہ لگا کر اچھا کام کررہی ہے ،مگر ٹیکس چوری کی روک تھام اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ٹیکس آمدن بڑھانے کیلئے مؤثر کاروائی کی ضرورت اپنی جگہ ویسے ہی برقرار ہے ۔
اس ملک میں جب تک ٹیکس کے انتظامی معاملات درست نہیں کیے جائیں گے اور جب تک ٹیکس چوری نہیں روکی جائے گی ، اس وقت تک معیشت میں بہتری نہیں آئے گی ، ہر حکومت ٹیکس چوری روکنے کے دعوئے بہت کرتی ہے ، لیکن ٹیکس چوری کیسے روکے گی ؟ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے کیلئے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے ،جبکہ ہمارے ہاں معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے ،یہاں پر متعدد کاروبار ایسے ہیں کہ جن کے لین دین کا کوئی ریکارڈ ہی حکومتی اداروں کے پاس نہیں ہے ، اس لیے ٹیکس چوری کے راستے کھلے ہیں اور حکومت چاہتے ہوئے بھی ٹیکس چوری روک نہیں پارہی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں بڑے زور شور سے دستاویزسازی کام شروع کیا گیا ،مگر ہلکی سی مزحمت کے اشارے پر ہی سارے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے ، اس کا ہی منفی اثر ہے کہ ہر حکومت بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ اور پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں ہی مصروف رہی ہیں ،آج حالات یہ ہیں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اُٹھارہا ہے ، لیکن ایسا کب تک چلے گا ، اس دورنگی اور صریح عدم مساوات کاخاتمہ کرنا ہی ہو گا۔
ہمارے ہاں معاشی اصلاحات کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر معاشی اصلات کے عملی اقدام کا فقدان ہی رہتا ہے، ہمارے حکمران نے ہمیشہ سے ہر مشکل کام مؤخر کر کے آسان راستہ ہی اختیار کرتے آئے ہیں ، انہوں نے پہلے ٹیکس دینے والوں پر ہی مزید ٹیکس مسلط کر کے کام چلا یا ہے ،لیکن اس آسان حکمت عملی کا اب وقت گزر چکا ہے ، نگران حکومت اچھا کرہی ہے کہ نئے ٹیکس نہیں لگا رہی ہے ، لیکن ٹیکسوں میں مزید اضافہ بھی انتہائی نقصان دہ ہو گا ، اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ انتظامی معاملات درست کر نے کے ساتھ ٹیکس چوری کے رجحانات کا بھی خاتمہ کیا جائے ،اس کیلئے جو بھی معیاری اقدامات ہوسکیں ،اختیار کیے جانے چاہئے ، ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ان پر عمل داری بھی یقینی بنانی چاہئے، اس سے ہی ملک میں معاشی استحکام آئے گا ۔