رنجشوں کی سیاست ختم ہونی چاہئے !
ملک میں عام انتخابات قریب آرہے ہیںاور سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذآرائی بڑھتی جارہی ہے،ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو مات دینے اور اقتدارمیں آنے کے خود ساختہ دعوئے کررہی ہے،پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ آئندہ میں وزیر اعظم بنوں گا کہ بلاول، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ،جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نواز شریف ا پنے سارے ہی مقدمات سے بری ہونے کے بعد خود کو چوتھی بار وزیر اعظم بنے کے سب سے ہی زیادہ مضبوط اُمیدار سمجھ رہے ہیں
،آئندہ اقتدار میں کون آئے گا اور کون وزیر اعظم بنے گا،یہ الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا ،لیکن اس اقتدار کی بچھی بساط پر کسی کی ایک اچھی چال بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔اس وقت ملک میں سیاسی منظر نامہ دیکھا جائے تو اہل سیاست کو عام انتخابات سے زیادہ اپنے انتخاب کی زیادہ فکر کھائے جار ہی ہے ، یہ عوام کی عدالت میں پیش ہو کر عوام کے ووٹ کے ذریعے منتخب ہو نے کے بجائے مقتدر حلقوں کی مدد سے اقتدار میں آنے کیلئے زور لگا رہے ہیں
، ایک اپنے پر ہو نے والی زیادتیوں کا ازا لہ چاہتا ہے تو دوسرا اپنی وفاداریوں کے صلے میں اقتدار کی باری لینے پر بضدہے ، یہ دونوں ہی اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہیں،جبکہ ان کے مدے مقابل کوئی تیسرا دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے ،تحریک انصاف کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان دونوں کیلئے ہی میدان صاف کیا جارہاہے ۔
یہ الیکشن کا کیسامیدان سجا یا جارہا ہے کہ جس میں مد مقابل ہی کوئی نہیں ہے اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھے جارہا ہے ، یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کیلئے نہ صرف لیول پلینگ فیلڈ مہیا کرے ،بلکہ ساری جماعتوں کی شکایات کا یکساں ازالہ بھی کرے ،
لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کو ہی اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہے اور اس کے ہی خلاف جانب دارانہ فیصلے دیے جا رہا ہے ، اس صورتحال میں ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ملک میں دو پارٹی الیکشن ہی ہونے جارہے ہیں اور یہ دونوں ہی پارٹیاں عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے نوراکشتی کررہی ہیں ، جبکہ اندر سے دونوں پارٹیوں کے آپس کے سارے معاملات طے پا چکے ہیں ۔
عوام اب اتنے بھی بھولے نہیں رہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ، سمجھ ہی نہ پائیں،عوام سب کچھ بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں کہ ان کے ساتھ الیکشن کے نام پر سلیکشن کا ڈرامہ کیاجارہا ہے ،ایک طرف میاں نواز شریف اپنے پر زیادتیوں کا حساب مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب آصف علی زرداری اور بلاول اچھے برے کا کھیل کھیلے جارہے ہیں ، جبکہ مولانا فضل الرحمن اپنی صدارت پکی ہونے تک الیکشن ملتوی کرانے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں
، نگران حکومتوں بھی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع کرکے اپنے رہنے کا جواز پیدا کررہی ہے ، اس سارے گھن چکر میں ان اپنے حواری طبقوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، جو کہ ناجائز منافع خوری کرنے اور مہنگائی بڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔عوام کس عذاب سے گزررہے ہیں،
کسی کو علم ہے نہ ہی کوئی جانا چاہتا ہے ، یہاںسب ہی اپنے حصول مفاد کی تگودو میں اتنے مگن ہیں کہ کسی کو عوا م کا کوئی کیال ہی نہیں ہے ،گزشتہ منتخب حکومت سے لے کرنگران حکومت تک محض زبانی کلامی دعوئوں کے علاوہ عملی طور پر عوام کو کوئی رلیف نہیں دیے پائی ہیں، مہنگائی جوں کی توں ہے ، لوگ بجلی اور سوئی گیس کے بلوں کو ہاتھوں میں لئے روتے پھررہے ہیں، ایک طرف عوام کا کوئی پر سان حال نہیں تو دوسری جانب ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے
،دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کے خاتمے کیلئے پاک افواج کے جوان دن رات اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کررہے ہیں ، لیکن اہل سیاست کیا کررہے ہیں ؟ انہیںحصول اقتدار کی لڑائی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے۔
اس صورت حال میں اگر الیکشن ہو بھی گئے تو انہیں کسی طور پرتسلیم کیا جائیگا نہ ہی ان کی کوئی ساکھ ہو گی ، اس کے نتیجے میں وہی جلسے ، جلوس ، بد نظمی ،انتشار ہی پھلے گا، اس لئے بہتر ہو گا کہ تمام حالات کو نئے سرے سے دیکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ہر ایک کو لیول پلئینگ فیلڈ نہ صرف مہیا کی جائے، بلکہ ہر سیاسی پارٹی تسلیم بھی کرے کہ کسی کے ساتھ ناجائز اور میرٹ سے ہٹ کر سلوک نہیں ہو رہا ہے،
یہ کام موجودہ حالات میں مشکل ضرور ہے، لیکن اگر کسی بھی ملک کے مقتدر ادارے اور طاقتور حلقے ٹھان لیں کہ ہر ایک کے ساتھ میرٹ پر سلوک ہونا چاہیے تو یہ کوئی نا ممکن کام بھی نہیں ہے،لیکن اس کیلئے اپنی ذاتیات سے نکل کر قومی مفاد میں آگے بڑھنا ہو گا ،ذاتی رنجشوں کو نہ صرف بھلانا ہو گا ، بلکہ رنجشوں کی سیاست کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا، اس کے بغیر ملک میںامن و استحکام لانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔