مستقبل کے راستے کا انتخاب ! 62

دہشت گردی جڑ سے ختم کرنا ہے!

دہشت گردی جڑ سے ختم کرنا ہے!

ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا میں نہ صرف بڑھتی نظر آرہی ہیں، بلکہ ان سے سیکورٹی اداروں کے ساتھ تعلیمی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی محفوظ نہیں رہے ہیں،دہشت گردوں کو جہاں آسان ہدف مل رہا ہے ،ٹارگٹ کررہے ہیں ، اس کے جواب میں سیکوڑتی فورسز کا آپریشن بھی جاری ہے ،پیر اور منگل کی درمیانی رات ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں مجموعی طور پر 27دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں،

جبکہ منگل کو علی الصبح سیکورٹی فورسز کی چوکی پر حملے، خود کش دھماکے اور فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 25جوان شہید ہوگئے ہیں،یہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دہشت گردی جڑ سے ختم کرنے کیلئے ایسے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لائے جائیں کہ جن میں افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطے اور علاقائی ملکوں کے متعلقہ فورم کا متحرک کیا جانا بھی شامل ہے۔پا کستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے ،

اس کے باوجود وطن عزیز میں مکمل امن و امان قائم نہیں ہو پارہا ہے ، اس کے پیچھے دشمن قوتیں کار فر ما رہی ہیں جو کہ سر حد پار سے دہشت گردانہ کاروئیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے ساتھ ہی پا کستان میں سر حد پار سے کاروائیاں رک جائیں گی ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو پا یا ہے، افغانستان میں تو امن قائم ہوتا نظر آرہا ہے

،لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ جاری ہے،اس دہشت گردی کے تازہ واقعے کے بارے میں حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اطلاعات کے مطابق حکومت کے پاس انٹیلی جنس کے اداروں کی جانب سے خبریں موجود تھیں،اس کے خلاف کاروائی بھی ہوئی، لیکن 27 قیمتی جانوں کو بچایا نہیں جاسکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور دہشت گرد سر حد پار سے کاروائیاں کررہے ہیں، اس بارے انٹیلی جنس رپورٹ ہونے کے باوجود دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنا اتناآسان کام نہیںہے ،اس کے لیے سیکورٹی فور سزکو دہشت گردوں کی کاروائی سے پہلے کاروائی یقینی بنانے پر زور دینا پڑے گا ،دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے ساتھ سہولت کاروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کر نا پڑے گی ،

ماضی میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایسے بروقت فوجی آپریشن کا میابی سے کیے جاتے رہے ہیں ، ان فوجی آپریشن کے بدولت ہی بڑی حدتک دہشت گردی پر قابو پا یاگیا تھا ،لیکن ایک بار پھر دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پرانی حکمت عملی کی جانب توجہ مبذول کر وارہے ہیں ، اس کے تحت ہی ملک کے اندر اور سر حد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ایک بار پھر ٹارگٹ کرنا پڑے گا۔
پا کستان کی سیکورٹی فورسز پا کستان کے اند ر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں ،لیکن سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے ،اس حوالے سے افغان طالبان نے امریکا سے معاہدہ بھی کررکھا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی ، افغان حکومت بارہا پا کستانی حکومت کو بھی یقین دلاتی رہی ہے

کہ ان کی سرزمین پا کستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی ،مگر ایک عر سے سے پا کستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور افغان حکومت اپنا وعدہ پورا کر پارہی ہے نہ ہی دہشت گردوں کی سر حد پار کاروائیاں روک پارہی ہے۔
پا کستانی حکومت کو دہشت گردی کے واقعات کے بعد افغان سفارتکارکو احتجاجی مراسلہ تھمانے کے بجائے افغان حکومت سے بات کرنی چاہیے اور اس امر کی جانب توجہ دلانی چاہیے کہ پاکستان میں امن افغانستان کی اسی طرح ضرورت ہے، جیسا کہ افغانستان میں قیام امن پاکستان کی ضرورت ہے، جبکہ پا کستان میںدہشت گردی کے واقعات کا تسلسل امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، اس کے لیے حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کو جہاں ہوشیار رہنا ہے

،وہیں افغان حکومت اور اس کے ادروں کو بھی ہو شیار رہنا چاہئے اور اس کے سد باب کیلئے مل کرباہمی مشاورت سے کام کر نا چاہئے ،اس صورت میں ہی خطے میں قیام امن لایا جاسکے گا۔افغان حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان واحدملک ہے، جو کہ ہر مشکل وقت میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا میں بھی موثر کردار ادا کرتا رہاہے،

کیا ہی اچھا ہو کہ دونوں ممالک کے ذمہ دار افراد مل بیٹھ کر بہتری کی کوئی موثرصورت نکالیں، دونوں ملکوں کی ترقی و خوشحالی اور خطے میں امن و استحکام کے لئے ایسے رابطے فوری طور پر ہونے چاہئے، ان رابطوں سے ہی دہشت گردی کے جڑ سے خاتمہ کی حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ خطے کے قیام امن کے خلاف سازشوں کا بھی سد باب کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں