پاکستان میں سیاسی عدم استحکام
تحریر۔ طالب عباسی
ہمارے وطن عزیز کو بنے تقریباً 76 برس ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے آج تک ہمارے کسی بھی وزیراعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو کہ 15 اگست 1947 سے 16 اکتوبر 1951 تک اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے ابھی ان کی وزارت عظمی کو چار سال اور ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ان کو راولپنڈی کے راجہ بازار میں جسے آج کل لیاقت باغ کہتے ہیں جلسے کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم نے آج تک اپنا پانچ سالہ دور مکمل نہیں کیا۔ ایک وقت میں سب سے ذیادہ عرصے تک لیاقت علی خان ہی وزیراعظم رہے اور ان کا یہ ریکارڈ آج تک کوئی توڑ نہ سکا۔ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے
کہ پاکستان سیاسی استحکام سے ہمیشہ محروم رہا ہے۔ اور کسی بھی ملک کی خوشحالی کا دارومدار اس کے سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ کوئی ملک سیاسی لحاظ سے جتنا مضبوط ہو گا اسکا معاشی نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ جس ملک کا معاشی نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں کے لوگ خوشحال ہوتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہاں غربت کم ہوتی ہے۔ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے خواندگی کی شرح ذیادہ ہوتی ہے اور لوگوں میں شعور بیدار ہوتا ہے اور پھر یہی باشعور لوگ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں
اور دیکھتے دیکھتے وہ ملک دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن جاتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال بھارت کی ہے اگر بھارت میں سیاسی استحکام نہ ہوتا تو آج بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت نہ بن پاتا اور اتنا بڑا بھارت آج کئی ٹکڑوں میں منقسم ہو جاتا۔ پاکستان بے شمار مسائل سے دوچار ہے اسکی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ملک کی تقریبا 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے
۔ ان کے لیے تین وقت کا کھانا ملنا مشکل ہو چکا ہے اور آبادی کی ایک بڑی تعداد روٹی، کپڑا، مکاں، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات حاصل کرنے سے محروم ہے جس کی وجہ سے ملک میں جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ناخواندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کا مطلب ہے لوگوں کی حکومت۔ اس نظام میں لوگ اپنے نمائندوں کا انتخاب خود اپنی ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہیں جن کو ووٹ کے صحیح استعمال کا علم نہیں ہے۔
کیونکہ کے جمہوریت اس معاشرے میں کامیاب ہوتی ہے جہاں 100 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوں۔ جن کو ووٹ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو۔ اور جن کو اچھے برے میں تمیز کرنا آتا ہو اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ملک میں شرح خواندگی 100 ہوگی۔ لیکن یہ تمام چیزیں سیاسی استحکام کے ساتھ منسلک ہیں ملک میں نظام حکومت کوئی بھی ہو لیکن اس میں سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سیاسی استحکام ہو گا
تو معیشت مضبوط ہو گی، دفاع مضبوط ہوگا۔ انفراسٹرکچر ڈیولپ ہوگا، اس سے لانگ ٹرم منصوبے بنائے جائیں گے، تعیلم اور صحت جیسی سہولیات مہیا ہونگی۔ لیکن اس سب کے لیے ہمیں اپنے وطن عزیز میں سیاسی استحکام کو دوام بخشنا ہوگا۔