34

انتخابی منشور کا سراب !

انتخابی منشور کا سراب !

ملک بھر میں انتخابی مہم کے زور پکڑتے ہی سیاسی جماعتوں کے منشور کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی ہے، سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے منشور انتخابی مہم کے دوران ہی جاری کرتی ہیں،اس مقصد عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ اگر برسراقتدار آئے تو ملک و عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کیا اقدامات کریں گے،

جبکہ عوام بھی چاہتے ہیں کہ ان کے سا منے ایک باضابطہ منصوبہ رکھا جائے اور اس پر عملی جامہ پہنانے کا عہد کیا جائے کہ جس کی روشنی میں عوام کسی جماعت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکیں، لیکن اس کے برعکس ہی ہوتا رہا ہے ، عوام کو کبھی آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا گیا نہ عوام کے فیصلے مانے گئے نہ ہی عوام کی مرضی کے خلاف اقتدار میں آنے والوں نے کبھی اپنے منشور پر ہی عمل کر نے کی کوشش کی ہے ،
یہ عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں پر جو بھی بر سر اقتدار آیا ہے ،اس نے عوام سے کیے وعدے پورے کیے ہیں نہ ہی اپنے دیئے گئے منشور پر ہی عمل کرنے کی کوشش کی ہے ، یہاں پر سارے ہی وعدے ،دعوئے اور دیئے گئے منشور عوام کو بہلانے ،بہکانے کیلئے ہی دیئے جاتے رہے ہیں ،اس لیے عوام کا ان سب پر سے اعتماد ہی اُٹھ چکا ہے ، عوام اب کسی وعدے اور منشور پر اعتماد کر نے کیلئے تیار ہیں

نہ ہی انتخابی منشور کے سراب میں آنا چاہتے ہیں،اس کے باوجودپرانی ہی رویت کے تحت عوام کو بہلایا جارہا ہے، اس میں پیپلز پارٹی چیئر مین بلاول بھٹوزرداری سب سے آگے ہیں ، انہوں نے اپنی پارٹی کا دس نکاتی منشور پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس پیش کردہ منشور پر ہی عمل ہوجائے تو ملک سے ریکارڈ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں

کہ اگر اقتدار میں آنے والی پارٹی اپنے دیئے گئے منشور پر ہی عمل کر لے تو بڑی حدتک غریب عوام کی زندگی میں تبدیلی آسکتی ہے ،لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی حکمران اپنے منشور پر عمل نہیں کر پایا ہے، اگر صرف پیپلز پارٹی پر تنقید کی جائے تو مناسب نہیں ہوگا،اس ملک میںسب کوہی حکمرانی کا حق ملا، لیکن نتائج کے اعتبار سے سب پارٹیاں ہی ناکام ر ہی ہیں، پیپلز پارٹی کو چار مواقع ملے، لیکن وہ اپنے منشور کے مطابق روٹی، کپڑا، مکان دے سکی نہ ہی غریب عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لاسکی ہے

،اس طرح ہی مسلم لیگ (ن) نے بھی خوشحالی، معاشی ترقی اور بین الاقوامی برادری میں وقار کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے، لیکن اس کے ادوار میں پاکستان اور اس کے عوام ان تمام چیزوں سے ہی محروم ہوگئے ہیں،اس کے بعد ان سب کی پی ڈی ایم نے تو ملک وعوام کو ایسی بد حالی کی دلدل میں دھکیلا ہے

کہ جس سے نکلنا ہی انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔اس صورتحال میں اب مسئلہ پارٹیوں سے زیادہ عوام کا ہے کہ وہ ان پارٹیوں کے منشوروں کا جائزہ ان کے دور اقتدار میں ہونے والے اقدامات کی روشنی میںلے کر فیصلہ کریںکہ آزمائے کوہی آزمانا ہے کہ نئے باصلاحیت لوگوں کو موقع دینا ہے ، عوام جب تک آزمائے ہوئے منشور کے سراب میں گھرے رہیں گے اور ان لوگوں سے حساب نہیں لیں گے، اس وقت تک آزمائی پارٹیاں جھوٹے وعدے اور دعوے کرتی رہیں گی،اپنے منشور کے سراب سے بہکانے کی کوشش کرتی رہیں گی،

اگر عوام بھی دھوکا کھانے پر ہی تلے رہیں گے تو اللہ تعالی کو بھی ان کی حالت بدلنے کی کوئی فکر نہیں ہے، کیونکہ اس کا بھی اصول ہے کہ وہ اس قوم کی حالت کبھی تبدیل نہیں کرتا ہے کہ جس کو اپنی حالت بدلنے کا کوئی خیال نہیں ہے، عوام کو اپنی حالت بدلنے کیلئے پہلے خود بھی کچھ کرنا ہو گا ،اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے درست فیصلہ کر نا ہو گا۔یہ بات طے ہے کہ آزمائی قیادت کے سارے دعوئوں سے لے کر انتخابی منشور تک کے سراب سے عوام کو نکلنا ہو گا ،آزمائی قیادت کو آنکھیں بند کر کے ووٹ دینے کے بجائے ووٹ مانگنے پر پچھلا حساب مانگا ہو گا ، اس انتخابات میں آزمائے کو اپنے ووٹ سے مسترد کر نا ہو گا ، اگر اس بار بھی عوام بند کمروں کے فیصلوں کو مانتے ہوئے

گھروں میں بیٹھے رہے اور باہر نکل کر اپنا رائے دہی دینے میں کو تاہی برتے رہے تو ایک بار پھر آزمائے کوہی آزمانے کیلئے تیار ہو جائیں ، اس بار پچھلے سے بھی سخت امتحان میں جانے کیلئے تیار رہیں ، کیو نکہ اس کے بعد جو کچھ عوام کے ساتھ ہو نے والا ہے ، جوسارا بوجھ عوام پر ڈالا جانے والا ہے ،اس میں عوام کی آواز کا نکلناتو دور کی بات سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گااورانتخابی منشور کی سراب زدہ عوام کے ہاتھ ماسوئے پچھتائوئے کے کچھ بھی نہیں آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں