شفاف انتخابات یقینی بنایئے !
عوام ا نتخابات کے خواہاںتھے ، عوام کی خواہش کے مطابق انتخابات ہونے جارہے ہیں ،عوام ا نتخابات سے اُمیدلگائے بیٹھے ہیں کہ سیاسی ومعاشی استحکام آئے گا، لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی طرف جاتا نظر آرہا ہے ،انتخابات کا وقت جوں جوںقریب آٓتا جارہا ہے، یہ خوف بڑھتا ہی جارہا ہے کہ ان بدلتے حا لات کے باعث ملک کاکیا بنے گا؟ یہ تاثر بھی تقویت پکڑنے لگاہے کہ جس انداز سے انتخابات کرائے جا رہے ہیں
، اْس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام کے بجائے عدم استحکام ہی بڑھے گا ، اگر سیاسی عدم استحکام مزید بڑھتا ہے تو اْس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا،جوکہ ملک و عوام کیلئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے ۔
اس ملک کے اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے نہ ہی طاقتور حلقے اپنے ناکام تجربات سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، ہر انتخابات میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدلا جاتا رہا ہے ،اس بار بھی صاف دکھائی دیے رہا ہے کہ پرانی ہی روایت دہرائی جائے گی اور ر اقلیت کو اکثریت میںبدل دیا جائے گا ،اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے تھے نہ ہی آئندہ اچھے نکلتے نظر آتے ہیں ، اس کے باوجود ایک ہی ضد ہے کہ آزمائے کو ہی آزمانا ہے ، ایک بار پھر اپنے ساتھ اپنے پیارے آزمائے اہل سیاست کو ہی ناکام بنانا ہے اور اس آزمائش کی بھینٹ عوام کو ہی چڑھانا ہے ۔
عوام کی قسمت میں آزمائش میں رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے
، اس آزمائش سے نکلنے کیلئے عوام بڑے ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں ،مگر انہیں کو راستہ ہی دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، آزمائے اہل سیاست اور ان کے سر پر ستوں نے عوام کے پاس کوئی چوئس چھوڑی ہے نہ ہی کوئی راہ کھولی رہنے دی ہے ، انہوں نے عوام کیلئے سارے ہی راستے بند کررکھے ہیں اور عوام کومجبور کیا جارہا ہے کہ ان کی ہی دی گئی چوئس پر بلا چوں چاں رضا مندی کا اظہار کرتے رہیں
،اس زور زبر دستی کا انجام کیا ہو گا ، یہ سوچ کر ہی ملک بارے خدشات بڑھنے لگتے ہیں، فکر لا حق ہوتی لگتی ہے،لیکن اس ملک کے کرتا دھرتائوںکو احساس ہی نہیں ہے کہ عوام میں بڑھتی نفرت کی دبی چنگاری سے کسی وقت ایسی آگ بھڑک سکتی ہے کہ جیسے بجھانا بس سے باہر ہو جائے گا۔
ملک میں ایک آزادانہ منصفانہ الیکشن ہی آپس کی نفرتوں کو مٹا سکتے ہیں ، دبی چنگاری بجھاسکتے ہیں، ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لا سکتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی الیکشن کے نام پر سلیکشن کی جارہی ہے ، عوام کے فیصلے سے پہلے ہی بند کمرے کے فیصلے پر عمل کرایا جارہا ہے
،اس پر سوال اْٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید یہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ایسے ہی انتخابات کرانے ہیں تو پھر انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ہی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ایسے ہی ضائع کیے جارہے ہیں،اس ملک کے فیصلہ ساز جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں، اْس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں، اس پر بھلا کسی کی جراٗت ہو گی کہ اعتراض کرے یا انکار کرے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہاں پر کس کا حکم چلتا ہے اور کس کی نا راضگی کتنی قیمت چکا نا پڑتی ہے ، اگر کوئی نہیں جا نتا ہے تو تحریک انصاف کے زیرا عتاب قیادت سے پو چھ لے ، تحریک انصاف کے مطابق اْنہیں انتخابی مہم چلانے دی جارہی ہے نہ ہی انتخابی عمل کا حصہ بننے دیا جارہا ہے، ان کے نوئے فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں، تحریک انصاف کو الیکشن تک کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا، اس بارے میں کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے نہ ہی وثوق سے کچھ کہا جا سکتا ہے ، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو جائے، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو تی رہے، اْسے انتخابات
جیتنے نہیں دیا جائیگا،اس انتخابات کے نتیجے میں پھر ن لیگ اور دوسری جماعتیں ہی ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی، لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی ،کیا ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لا پائے گی اور کیا اپنی مدت پوری کر پا ئے گی ؟اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسے مثبت بنانے کی بے جا کوشش کیوں کی جارہی ہے،ملک میںصاف و شفاف انتخابات ہی یقینی بنا یئے،کیو نکہ عام انتخابات کا قابل اعتبار انعقاد اور ایک مضبوط و فعال منتخب حکومت کا قیام ہی ملکی مسائل کا واحد حل ہے۔