خونی رشتہ،الفت محبت ہمدردی کا منعکس ہوتا ہے 89

شاہ سعود کا دورہ ھند 1955، اور اس وقت نیز آج کے شاہان عرب کے ایمان افروز بدلتےکردار و اقدار پر ایک نظر

شاہ سعود کا دورہ ھند 1955، اور اس وقت نیز آج کے شاہان عرب کے ایمان افروز بدلتےکردار و اقدار پر ایک نظر

نقاش نائطی

+966572677707

اسمرتی ایرانی کے بے حجاب مدینہ گھومنے اجازت ملنے پر اٹھنے والے عالم اسلام احتجاج پر اسلام دشمن سنگھی خوشیوں کو شادیانے بجاتے ہوئے ابن بھٹکلی
کیا اب حرمین شریفین کو بھی عالمی ٹیورسٹ مسافروں کے لئے کھولا جارہا ہے؟
بحرین دو سو سالہ مندر منصوبے کے لئے مودی جی نے 2۔4 ملین ڈالر بحال کئے

1955 اس وقت شاہ سعود کے ھند سفر کا ویڈیو کلپ

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزاء مانگتے ہیں

سجدہ خالق کا بھی، ابلیس سے بھی یارانہ ہے
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگیں گے

ہو نکو نام (قبروں کی چوری سے)تجارت کرکے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو، اللہ ہو احد کہتے تھے
علامہ اقبال

1947آزادی ھند کے بعد دسمبر 1955 ہند واسیوں کے لئے وہ سب سے اہم خوشیوں والے دن تھے جن دنوں مسلمانوں کے سب سے لائق احترام، حرمین شریفین والی ارض مقدس کے، والی یا بادشاہ مملکت سعودی عرب، ملک سعود بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ، اپنے پہلے ہندستان دورے پر آئے ہوئے تھے۔کسی بھی عرب شہنشاء کا یہ اولین ھند دورہ تھا اور شاہ سعود ممبئی ، حیدر آباد، میسور، بنگلور، آگرہ، دہلی، علیگڑھ، سمیت ہندستان کے اکثر بڑے شہروں کی زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے لیکن، ہندستان اور سعودی عرب کے درمیان حکومتی سطح پر طہ پانے والی اہم سمٹ یا میٹنگ ہندوؤں کے مقدس شہر بنارس میں رکھی گئی تھی۔ جہاں پر ھند و سعودی عرب کے درمیان باقاعدہ ایگریمنٹ طہ پائے جانے تھے۔
اس وقت سائبر میڈیا معلومات آگہی سے ماورا اس زمانے میں، ہندستان آمد کے بعد، ان کے ھند دورے کی تفصیل جب شاہ سعود کے سامنے رکھی گئی تو شاہ سعود، ھندو مندروں کے شہر بنارس کی میٹنگ، کہیں اور منعقد کرنے پر مصر تھے۔ آپس میں تفاھم کرنے والے ہندستانی و سعودی ذمہ داروں نے، جب شاہ سعود کو، ھند کی طرف سے بنارس میں پوری تیاری کئے جانے کا تذکرہ کر، حسب پروگرام، اس نشست کے،بنارس ہی میں منعقد کئے جانے پر انہیں راضی کرنے کی کوشش کی تو،اس وقت شاہ سعود کا ایمان سے لبریز بیان تھا “ہم اس نبی آخر الزمان کے امتی ہیں، جس کی راہ میں اصنام آجائیں تو پہلے ہم انہیں توڑتے یا ختم کرتے ہیں، پھر ہم کیوں کر مندروں کے شہر بنارس جاسکتے ہیں؟ اور دنیوی منفعت مستقبل امور اپنی ترقیات کے منصوبے ترتیت دے سکتے ہیں؟”

چونکہ دونوں ممالک کے درمیان منعقد اس سمٹ کی تیاریاں پوری ہوچکی تھیں۔اس لئے اس وقت کے قائدین و سربراہان ہندستان نے، آپسی صلاح و مشورے کے بعد،سعودی فرمانروا کے جذبہ ایمانی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے،شاہی سواریوں کی شاہراہوں پر پڑنے والے تمام مندروں کو عارضی کپڑے کے نقابوں سے ڈھک دیا تھا۔ اس پر غالبا گنگا کنارے منعقد، شاہ سعود کے اعزاز میں رکھے مشاعرہ میں، اس وقت بنارس کے مشہور شاعر نذیر بنارسی نے شہنشاہ سعودی عرب، شاہ سعود بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کے، ایمانی جذبہ ولولہ کے سامنے، نقاب پوش مندروں پر معرکہ الآرا اشعار پڑھے تھے۔

ادنیٰ سا غلام ان کا گذرا تھا بنارس سے
منھ اپنا چھپاتے تھے کاشی(بنارس) کے صنم خانے

اس وقت آج سے تقریبا 65 سال قبل 1955 میں شاہ سعود کے اعزاز میں منعقدہ عالمی مشاعرہ میں، مشہور ہندستانی شاعر، کشمیری متوفی پنڈت آنند موہن زتشی عرف عام گلزار دہلوی (7 جولائی 1926 تا 20 جون 2020) نے، اپنے کلام نعت پاک سے، اس وقت مشاعرہ لوٹتے لوٹتے، شاہ سعود کو بھی اتنا متاثر کردیا تھا کہ شاہ سعود نے،گلزار دہلوی کو ان ایام سعودی عرب اپنا مہمان خصوصی بناکر بلایا تھا۔ آج ان ایام کو بنفس نفیس دیکھنے اور محظوظ ہونے والوں میں، غالبا گلزار دہلوی واحد شخص ہیں جو اپنی عمر کی 94 بہاریں دیکھتے ہوئے،

ابھی تک بصحت زندہ ہیں۔ گلزار دہلوی کے اعزاز میں ہم عاشقان اردو ادب الجبیل کے اہتمام کردہ شب گلزار دہلوی 2011، جب وہ الجبیل تشریف لائے تھے تب گلزار دہلوی کو بعد مشاعرہ عشائیہ اپنے غریب خانے پر کھلانے کا اعزاز ہمیں حاصل تھا اور مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کے صد سالہ پروگرام کے حصے کے طور، منعقدہ آل انڈیا مشاعرے میں، شرکت کے لئے 2016 گلزار دہلوی کو بھٹکل دعوت پر بلایا گیا تھا۔اس وقت بھی گلزار دہلوی، عمران پرتاب گڑھی سمیت تمام مہمان مشاعرہ،صد سالہ تقریبات مجلس اصلاح و تنظیم کو،اپنے سسرالی گھر، حافظکا ھاؤس میں، عشایہ ترتیب دینے کا بھی ہمیں موقع ملا تھا

اب اس ایمان افروز واقعہ پر 65 سال گزرنے کے بعد، شاہان یو اے ای بحرین و دیگر ممالک خلیج کے شاہان کی طرف سے، اپنے اپنے ملک کے سب سے بڑے عوامی ایوارڈ کو، ہزاروں مسلمانوں کےقاتل گجرات کو، اعزاز بخشنے کے عمل نے،اور خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے زمام حکومت میں، خطہ عرب کو یہود و نصاری و مشرکین و ان کے عبادت خانوں سے پاک و صاف قرار دئیے جانے کے عمل بعد، اپنے پیٹرو ڈالر کی وجہ، معاشی طور مستحکم ان شیوخ عرب کے، اپنے یہاں کھلے عام شرک کرنے اور کرانے والے معبد خانے، مندر تعمیر کرنے کے فیصلوں نے، بانی مملکت سعودی عرب،ملک سعود بن عبدالعزیز کے، دیار ھند، اظہار ایمان افروزی کے اس واقعہ کی یاد تازہ کردی ہے

یہی نہیں جب شاہ سعود بن عبدالعزیر تاج محل کی سیر پر نکلے تھے، زیر زمین شاہ جہاں و نورجہاں کی قبر کی زیارت کرنے، جھک کر اندر جانے سے انکار کرتے ہوئے، اپنے جذبہ ایمانی کو اس وقت بھی نہ صرف درشایا تھا، بلکہ ہندستان دورے بعد،اپنے پاکستان دوڑے پربھی، جب انہیں مزار قائد اعظم پر لیجایا گیا تھا تو،وہاں پر شاہ سعود کے اس وقت کہے ایمان افروز جملے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔مزار قائد پر وہ شان و شوکت والے شرکیہ اعمال دیکھ ،شاہ سعود نے کہا تھا کہ “یہ سب شرکیہ اعمال اسلام میں جائز ہوتے

تو، ہمارے پاس مدینہ میں خاتم الانبیاء سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی قبر اطہر موجود تھی، ہم اس پر مزار قائد اعظم سے کئی گنا بڑا اور عالیشان مزار سونے کا بنا سکتے تھے، ہم مسلمان ان شرک و بدعات کو ختم کرنے آئے ہیں اور شرک و وبدعات سے اپنی رعایا کو بچائے رکھنا ہی، ہمارا اصل کام و مقصد ہے۔ پھر میں کیسے قائد پاکستان محمد علی جناح کی قبر پر حاضری دئیے ان شرک و بدعات اعمال کو بڑھاوا دینے کا موجب و ممد گار بن سکتا ہوں” یہ کہتے ہوئے قبر پر حاضری سے اجتناب برتا تھا

یہی وہ عظیم مشن تھا جس پر شاہ سعود بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ اور ان کے بعد شاہ فیصل علیہ الرحمہ نے، الشیخ عبدالوہاب نجدی کی سرپرستی و نگرانی میں، نبی آخر الزمان کی 13 سالہ مکی زندگی کی محنت ایمانی پر کام کیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے، دولت و ثروت کی فراوانی کے چلتے، اپنی تمام تر عیاشیوں کے باوجود، عام باشندگان سعودی عرب کا ایمان و تقدیر پر بھروسہ کامل، آج بھی جتنا مضبوط و مستحکم ہے اس کی نظیر پورے عالم میں بہت کم ملتی ہے۔

ایک وقت تھا خیلج کے صحراؤں میں روزی روٹی کمانے یہاں آنے والے ہندو بھائی، اپنے ساتھ اپنی آستھا، اپنی پوجا ،اپنے گھر پر عبادت کرنے کے لئے بھی، اپنے دیوی دیوتاؤں کی تصویر ساتھ لانے پر، عرب ملکوں کے کسٹم حکام ،بڑی ہی حقارت کے ساتھ، ان تصویروں کو بلدیہ ڈرم میں پھینکتے ہوئے،”ممنوع ممنوع”کہتے تھے۔

اب اسی عربستان میں شیوخ عرب نے،چودہ سو سال قبل شرکیہ اعمال سے علاقے کے لوگوں کو نجات دلانے کے لئے،تمام مندروں، گرجا گھروں سے علاقے کو پاک و صاف جو کردیا گیا تھا اب یہی عرب حکمران، اپنے معشیتی فائدے کے لئے، مودی جی کو مہمان خصوصی کے طور، اپنے یہاں بلا کر، ہزاروں گجراتی کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگے، اسکے نجس ہاتھوں سے، عربستان میں مندر کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔

اللہ ہی الآمان الحافظ اس ریگزار عرب کا**وقت خلافت راشدہ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ کے زمانے میں, مقامات مقدسہ حرم مکی و مدنی کو مشرکین کے بدنی دخول سے بھی پاک و صاف جو رکھا گیا تھا، آج اسی ارض مقدسہ پر چودہ سو سالہ ممانعت کفار و مشرکین بعد، ایسی کیا ضرورت پیش آئی؟ کہ عالم بھر میں اپنی مسلم دشمنی میں نمایاں،ھندو شدت پسند دہشت گرد تنظیم آرایس ایس، بی جے پی سے وابسطہ،بھارتیہ حکومتی وفد، بشمول،بے پردہ نساء قائد وفد ھند، اسمرتی ایرانی کو، ارض مقدس حرم مدنی گنبد خضراء کے قریب لیجانے کی جسارت کیوں کر کی گئی ہے؟

ابھی کچھ سال پہلے 2011 الجبیل منعقدہ شب گلزار دہلوی مشاعرہ میں، اس وقت تک کے بھارت کے معمر ترین اردو شاعر، جو اس وقت مملکت بطور مہمان شاعر، حاضر مشاعرہ تھے، ہزاروں کے مجمع میں، 1955 شاہ سعود کے دورہ ھند کے وقت، انکے اعزاز میں منعقدہ اردو مشاعرہ میں، شاہ سعود مرحوم کے سامنے (انکےایک غیر مسلم برہمن کشمیری پنڈت، شیروانی ٹوپی زیب تن کئے،سراپاء مسلم بنے) نعت رسولﷺ پڑھنے پر،کلام نعت رسول سے جھوم اٹھے، شاہ سعود نے، اس کشمیری ھندو پنڈت کو،سعودی عربیہ بطور شاہی مہمان آنے کی دعوت دی تھی اور ان ایام مملکت میں بطور شاہی مہمان بن تشریف لائے،آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نے، اس وقت شاہ سعود سے روضہ اقدس گنبد خضراء عقیدتا” قدم بوسی، حاضری کی التجا جب کی تھی، تب بھی شاہ سعود نے، انہیں مدینہ منورہ روضہ اقدس پر، بنفس نفیس جس خاکی کے حاضر نہ ہونے دینے پر معذرت کرتے ہوئے،

انکی دعوت پر مملکت تشریف لائے، شاہی مہمان کی درخواست و التجاء پر، صرف ہیلیکوپٹر ہوائی پرواز،اوپر ہی سے گنبد خضراء کے درشن کروانے کا برملا اظہار الجبیل مشاعرے والے ہزاوں سامعین اردو کے سامنے کرتے ہوئے، بطور ھندو برہمن، اوپر آسمان ہی سے،گنبد خضراء کی دید کروانے پر، شاہ سعود مرحوم علیہ الرحمہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ارض مقدس مدینہ منورہ پر آج بھارتیہ ھندو، بے پردہ نساء کو لیجانے کی ضرورت اب کیوں کر پڑ گئی، اس کا بہتر ادراک شاہان مملکت ہی کو ہے۔اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ان شاہان عرب ہی کے ساتھ ہم جمیع مسلمین کو صراط مستقیم پر چلنے والوں میں سے بنائے۔ آمیں یا رب العالمین۔زواللہ والاعلم بالتوفیق الا باللہ

بحرین : 200 سالہ قدیم مندر کے لئے 4.2 ملین امریکی ڈالر کے بحالی منصوبے کا، وزیراعظم مودی کے ہاتھوں آغاز
اگست 25, 2019

بحرین کے دارالحکومت میں 200 سالہ قدیم لارڈ سری کرشنا مندر کے 4.2 ملین امریکی ڈالر کے بحالی منصوبے کا آغاز کیا۔

وزیر اعظم مودی ، اہم خلیجی ملک کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ، منامہ کے شری ناتھ جی مندر ، اس خطے کا سب سے قدیم مندر ، میں پوجا کی اور ‘پرساد’ بھی تقسیم کیا۔وزیر اعظم نے تختی کی نقاب کشائی کی ، اس طرح مندر کے بحالی منصوبے کا باضابطہ آغاز کیا۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک ٹویٹ میں کہا۔
“گرم جوشی اور پیار کے لئے بحرین کا شکریہ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے منامہ میں 200 سال پرانا شری ناتھ جی مندر میں پوجا کے ساتھ ہی اپنے تاریخی دورے کا اختتام کیا ، واضح ہوکہ مندر علاقے کا سب سے قدیم مندر ہے۔

پنڈت جواہر لال نہرو کی دعوت پر 4 دسمبر 1955 کو شاہ سعود بھارت آئے، بنارس آنے کا بھی ان کا پروگرام تھا
حکومتِ ہند نے ان کے لیے خصوصی ریلوے کوچ تیار کرایا، بنارس کی سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں پر کلمہ طیبہ والے جھنڈے نصب کیے گئے ،

یہاں مہاراجا بنارس کے وہ مہمان ہوئے،جن راستوں سے وہ گذرنے والے تھے وہاں کے بت خانے پردے سے ڈھک دیے گئے تھے،

اسی موقع پر نذیر بنارسی نے ایک شعر کہا تھا جو اکثر یہاں عوام و خواص کی زبان پر رہتا ہے ۔

ادنیٰ سا غلام ان کا گذرا تھا بنارس سے
منھ اپنا چھپاتے تھے کاشی کے صنم خانے

( کتاب “تاریخ آثار بنارس” میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں