عوام ایک بار پھر ہار جائیں گے ! 64

کشکول ایسے نہیں ٹوٹے گا !

کشکول ایسے نہیں ٹوٹے گا !

دنیا کے بیشترممالک معاشی پہیہ رواں رکھنے اور صعنتیں لگانے کے لئے ناصرف بیرونی اور اندرونی قرض لیتے ہیں، بلکہ ان قرضوں کے درست استعمال سے معیشت کی بحالی کے ساتھ قرضوں کی واپسی بھی یقینی بناتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں اس کے بر عکس ہو تا رہا ہے، ہمارے حکمرانوں نے غیر ملکی قرضوں کو نہ صرف غیر پیداواری منصوبوں میں لگایا، بلکہ ناقص احتسابی عمل کا فائدہ اٹھا کر قومی خزانہ لوٹ کر بیرون ممالک اپنے اکائونٹ بھرے اور جائیدادیں بنائی ہیں،یہ اس مجرمانہ طرز عمل کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج حکومت کو قرضوں کے سود اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہر ماہ ایک ہزار ارب روپے قرض لینا پڑ رہا ہے اور قرض دینے والے مالیاتی ادارے پالیسی سازی میں مداخلت کر کے ملکی خودمختاری سے کھیل رہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے پالیسی سازی میں مداخلت کررہے ہیں اور ہمارے حکمران مزاحمت کر نے کے بجائے اُن کی خشنودی کر نے میں ہی لگے ہوئے ہیں ، یہ کر بھی کیا سکتے ہیں ، اگر قر ض پرقر ض ہی لینا ہے تو انہیں راضی رکھانا ہی پڑے گا اور اس کیلئے اُن کی ہر جائزو ناجائزنہ صرف مانا پڑے گی ، بلکہ انہیں مداخلت کا اختیار بھی دینا پڑے گا،اس میں کوئی ایک قصورار نہیں

،سارے ہی ذمہ دار ہیں ، یہاں پر ہر دور حکومت میں عوام سے وعدے اور دعوئے کیے جاتے رہے ہیں کہ کشکول توڑیں گے ،ملک وعوام کو قر ضوںسے نجات دلائیں گے ،مگرکشکول توڑا گیا نہ ہی ملک عوام کو قر ضوں سے نجات دلائی جاسکی ہے،اُلٹا مزید قر ضوں کی دلدل میں ہی دھکیلا جاتا رہا ہے ،یہاں روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرا لگانے والوں نے کچھ کیا نہ ہی قرض اتارو ، ملک سنوارو کا نعرہ لگانے والے کچھ سنوارپائے ہیں ، یہ اقتدار کی باریاں لینے والے عوام کو ما یوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دیے پائے ہیں۔
یہ بات اہل سیاست بخو بی جانتے ہیں کہ عوام سب کچھ جان چکے ہیں ،اس کے باوجود آزمائی قیادت اقتدار میں آنے کیلئے بضد ہے کہ چوتھی بار آکرسب کچھ ہی اچھا کر دیں گے، یہ اقتدار کی تین باریاں لے کر کچھ کرپائے نہ ہی اکٹھے مل کر کچھ کر پائے ہیں،یہ کشکول توڑنے کے دعوئیدار کشکول لے کر در بدر پھرتے رہے ہیں،یہ ان کی کاسہ گری کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کے بارے میں اندازہ لگایا ہے

کہ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے جاری مالی سال کے اختتام تک یہ 820 کھرب روپے کے قریب پہنچ سکتا ہے،اس آزمائی قیادت کے پاس قرضوں میں کمی لانے کا کوئی پلان ہے نہ ہی انہوں نے درپیش چیلجز سے نمٹنے کا کوئی حل تلاش کررکھا ہے ، پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی تھنک ٹینک چلاتی ہے نہ ہی کسی نے کوئی تحقیق پر مبنی مطالعہ تیار کیا ہے کہ جس میں پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے لیے عملی حل پیش کیے ہوں، یہ جمہوریت کی نہیں، بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے، اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انہوں نے کبھی کوئی فکر ہی نہیں کی ہے

، یہ کل بھی محض زبانی کلامی دعوئوں پر انحصار کرتے تھے ،یہ آج بھی اپنے دعوئو ں سے ہی عوام کو بہکانے اور بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہماری سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان کے پاس نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنے کا ویڑن ہے نہ ہی عوام کے بدلتے رویئے کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، یہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ جوڑ توڑ ، الیکٹ ایبل اور مقتدرہ کے سہارے اقتدار میں آ جائیں گے، اس لیے عوام کو چھوڑ کر مقتدر کی خشنودی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں کوشاں ہیں

،جبکہ عوام کے شعور کی سطح آسمان کو چھو رہی ہے،اس وقت50 فیصد سے زائد ووٹرز نوجوان ہیں کہ جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا اور کون ان کے حلقے کی نمائندگی کرتا رہا ہے،وہ آج کے بارے میں پوچھتے ہیں اورآج ہی کے بارے سوالات کا جواب چاہتے ہیں، یہ تحریک انصاف قیادت کو ہی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔
اس سیاسی شعور کے ساتھ عوام کیلئے یہ باتیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں کہ بجلی کے یونٹس فری دیں گے ،معاشی خوشحالی لائیں گے، کشکول توڑیں گے ، قر ضوں سے نجات دلائیں گے ، یہ ساری باتیں پرانی ہیں ، اب عوام پوچھتے ہیں کہ انہیں سوچ، فکر اور حقوق کی آزادی کب ملے گی؟ انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی طرح عدل و انصاف اور مساوات کے تحت زندگی گزارنے کا موقع کب دیا جائے گا، امیر و غریب کے درمیان نظام نے جو تفریق پیدا کر رکھی ہے، اس کا خاتمہ کیسے ہوگا ، کروڑوں پاکستانیوں کو غلام سمجھنے ، غلام بنانے کی مکروہ روایت کب اپنے انجام کو پہنچے گی ۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ بدلتے حالات میں آزمائی قیادت کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے نہ ہی عوام کے بدلتے موڈ کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ، بھٹو نے اپنے دور میں عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا توعوام نے انہیں قائد مان لیا تھا، اس بار عوام صرف اسے ہی اپنا قائد مانیں گے، جو کہ ان سے روٹی دال کی باتیں نہ کرے، روز گار ،مکان دینے کی باتیں نہ کرے ،بلکہ انہیں خودی، خود داری کے ساتھ زندہ رہنے اور برابری کے حقوق دلانے کا یقین دلائے، انہیں ہر غلامی سے نجات دلانے کی کو شش کرے ،ا س وقت بڑی آسانی سے جانا جا سکتا ہے کہ ایسا کون کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،اس کے ساتھ ہی عوام کھڑے ہیں اور اُسے ہی اپنا قائد مان رہے ہیں،اگر اس کے خلاف کوئی جانے کی کوشش کرتاہے تو اس کے نتائج بھی اُسے ہی بھگتنا پڑیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں