بیرون ملک جانے والوں کی طویل قطار !
پاکستان کے لوگ اور خاص کر نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے ملک ہی میں پرسکون اور آسان زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس ملک میںسکون اور چین کا میسر ہونا تو دور کی بات، عام لوگ بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہیں، ایک طرف آ ئے روز بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری ہے تو دوسری جانب بجلی ، گیس کی گھنٹوں بندش کے باعث لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں
، اگر قانونی راستے سے نہیں جاسکتے تو غیر قانونی راستوں کے ذریعہ خطیر رقم کی ادائیگی کے ساتھ کنٹینروں، کشتیوں اور ٹرک کے نچلے حصے میں لیٹ کر،لٹک کر اپنی زندگیاں دائوپر لگا کر بارڈر کراس کر نا چاہتے ہیں ۔
یہ انتہائی افسوس ناک آمر ہے کہ پا کستان کے نوجوان نا چاہتے ہوئے بھی اپنا جان و مال دائو پر لگا کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں،لیکن اس ملک کے حکمران اشرافیہ کو کوئی پروا ہے نہ ہی اس کے تدارک کیلئے کوئی اقدامات کیے جارہے ہیں ، بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں ماہ نومبر تک پوری دنیا میں 50 سے زیادہ ممالک میں کل 805088 پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے گئے ہیں
، اس میںسب سے زیادہ جانے والے 10 ممالک میں پہلے نمبر پر سعودی عرب میں 392017 ،تقریباً 50 فی صد ،دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات میں 221763، تقریباً 27 فی صد، تیسرے نمبر پر سلطنت عمان میں 55107 ،تقریباً 7 فی صد، چوتھے نمبر پر قطر میں 52294 ،تقریباً 6 فی صد، پانچویں نمبر پر ملائیشیا میں 20411 ،تقریباً 2.5 فی صد )، چھٹے نمبر پر برطانیہ میں 14394، تقریباً 2 فی صد، ساتویں نمبر پر بحرین میں 12162 ،تقریباً 1.5 فی صد، آٹھویں نمبر پر رومانیہ میں 4874 ،تقریباً 0.6 فی صد،،
نویں نمبر پر عراق میں 3797، تقریباً 0.5 فی صد، دسویں نمبر پر یونان میں 2874 ،تقریباً 0.35 فی صد،لوگ روزگار کے لیے گئے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ان میں زیادہ تر لوگ اپنی خوشی سے نہیں ، بلکہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے گئے ہیں ، اگر انہیں اپنے ملک میں بہتر روز گار کے بہتر مواقع میسر ہوتے ، زندگی کی سہولیات ملتیں تو ملک چھوڑ کر کبھی جاتے نہ ہی بیر ون ملک دھکے کھاتے نظر آتے ، یہ عام تاثر ہے کہ بیرون ملک جاتے ہی آدمی سیٹ ہو جاتا ہے ، جبکہ حقائق بالکل بر عکس ہیں ،
بیرون ممالک ایک لمبی تھکا دینے والی جدوجہد ہوتی ہے کہ جس کا اندازہ کوئی بیرون ملک جاکر ہی لگا سکتا ہے ، یہ دور سے دکھائی دینے والے اور سنائی دینے والے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، لیکن اس کا بخوبی اندازہ تو روز گار کے لیے جانے والے اکثر پاکستانیوں کو بیرون ملک پہنچتے ہی ہو تا ہے،ایک طرف اپنی ہی پا کستانی کمیونٹی کے بغض ،حسد کا سامنا کرنا پرتا ہے تو دوسری جانب ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں،
جو کہ ان کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں نہ ہی کبھی ایسی نوکریوں کا گمان کیا ہوتا ہے، لیکن اس میں اطمینان کا ایک پہلو ہوتاہے کہ روزگار کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے سے کچھ نہ کچھ اشک شوئی بہرحال ہو ہی جاتی ہے، اس طرح بیرون ملک جانے والوں کی قربانی سے اہل خانہ کی زندگی میں کچھ آسانیاں تو آہی جاتی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس ملک کے عوام کی قسمت میں قر بانیاں دینا ہی لکھ دیا گیا ہے ، اس ملک میں رہنے والے یہاں رہ کر قر بانیاں دیے رہے ہیں ،جبکہ بیرون ملک جانے والے وہاں رہتے ہوئے قر بانیاں دیے رہے ہیں ،اس قربانی کے چکر سے پاکستانی عوام نکلنا چاہتے ہیں ،لیکن انہیں نکلنے کا راستہ ہی نہین دیا جارہا ہے ،عوام سے ہر بار وعدے کیے جاتے ہیں ، عوام کو دلاسے دیئے جاتے ہیں ،
لیکن ہر بار سارے وعدے ، سارے دعوئے دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں ، عوام سے ہی بار بار قر بانی مانگی جاتی ہے ،عوام کو ہی زبر دستی قر بانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ،یہ عوام سے بار بار قر بانی مانگنے والے خود ایک بار بھی عوام کیلئے قر بانی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔اس آزمائی قیادت سے عوام تنگ آچکے ہیں ، عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ،اس کیلئے انتخابات کا انتظار ہے ،انتخابات آٹھ فروری کو ہونے جارہے ہیں
،اس وقت انتخابات کا دور دورہ ہے اور سیاستدانوں نے جھوٹے وعدوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا ہے، ایک بار پھر روٹی روز گا ردینے کے وعدے کیے جانے لگے ہیں ، ایک بار پھر خوشحالی لانے کے خواب دکھائے جانے لگے ہیں ، ایک بار پھر عوام کی زندگی بدلنے کے دعوئے کیے جانے لگے ہیں،تاہم اس ملک میں کچھ بدلنے والا ہے نہ ہی آئندہ انتخابات کے بعدکچھ بدلتا دکھائی دیے رہا ہے ،آزمائے کو ہی آزمانے کی ضد کے باعث حالات جس سمت جا رہے ہیں، اس سے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والوں کی قطار طویل سے طویل تر ہی ہوتی جائے گی