یہ بازی پلٹ بھی سکتی ہے !
ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد اس کیلئے بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی راہ میں روکاوٹ حائل ہو چکی ہے ،اس پارٹی کے گزشتہ انتخابات میں ڈیڑھ کڑوڑ سے زائد وٹر تھے ، جبکہ اس بار ان ووٹروں کو اپنی پسند کی پارٹی منتخب کر نے سے محروم کر دیا گیا ہے ،اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں ،مگر ایک مقبول سیاسی جماعت کا اپنے نشان سے محروم ہونا اور عام انتخابات میں بطور جماعت حصہ نہ لے لینا،عام انتخابات کی ساکھ کیلئے بھی بہت بڑا نقصان ہے۔
یہ تحریک انصاف کے خلاف آنے والا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے ، اس فیصلے کی گونج بڑی دیر سے سنائی دیے رہی تھی،لیکن اس پر کوئی یقین کر نے کیلئے تیار ہی نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے ، ایک عرصے سے فیصل واڈا بھی بتائے جارہے تھے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہو گی نہ ہی پی ٹی آئی قیادت نظر آئے گی ، تاہم میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے بڑی محنت سے وہ سب کچھ کر دکھایا ہے ،جو کہ سب لوگوں کو نظر تو آرہا تھا، مگر اس پر یقین کرنا انتہائی مشکل تھا، مگر ایک اور سچ بھی ہے کہ میاں نواز شریف سے لندن پلان کے مراحل طے کرنے والوں نے اپنا سب کچھ ہی دائوپر لگا کر اس پر عملدرآمد کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لندن پلان کوئی پہلی بار نہیں بنا ہے ، اس طرح کے پلان کئی بار بنائے گئے اور ان کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی ہے ،لیکن پلان بنانے والے اور اس کی تکمیل کر نے والے کبھی سامنے نہیں آئے تھے ،اس بار سب کے چہرے اور کردار واضح دکھائی دینے لگے ہیں ، لیکن اس کی کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ، وہ لندن پلان کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں ، اس لندن پلان کی تفصیلات و شرائط مسلم لیگ(ن) کی مستقبل کی قائد مریم نواز نے اپنے جلسوں میں بیان کرتی رہی ہیں، جوکہ تحریک انصاف قیادت کے اقتدار سے علیحدگی سے شروع ہو کر ترازو کے پلڑے برابر کرتے ہوئے ہوئے نہیں،بلکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکانا، بلے کا نشان چھیننا، کھلاڑیوں کو سر بازار رسوا کرنا، عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو دوتہائی اکثریت دلوانا اور میاں نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنوانے پر ختم ہوتی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو 13 جنوری کے بعد سے مریم نواز صاحبہ کو مطلوبہ نتائج دینے کی راہ میں اب کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے ، جبکہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھیننے کے بعد تحریک انصاف کو اب کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے، تاہم تحریک انصاف کے بھی کچھ پلان کے حصے ابھی باقی ہیں، اس پر عمل پیراں ہوتے ہوئے مزاحمت جاری ہے ، پارٹی اور کھلاڑیوں پر تمام تر سختیوں کے باوجود کھلاڑیوں کے قدم ابھی تک ڈگمگائے نہیں ہیں، سروے بتا رہے ہیں کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے بکسے بہت زیادہ بھاری ہوں گے ، اس بکسے بھاری ہونے کے خوف نے سب کی ہی نیندیں اْڑا رکھی ہیں، اس لیے انتخابی مہم کے ساتھ انتخابات کے التوا کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
اس وقت انتخابات کی تیاری کے حوالے سے معاملات جس حد تک آگے جاچکے ہیں ،بظاہر ان کا واپس ہو نا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ،
،لہذا کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے ، تاہم یہ الیکشن کیسے ہوں گے اور ان کی ساکھ کیسی ہو گی ،اس بارے حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے ،تاہم یہ ایک خوش فہمی ضرور ہو گئی ہے کہ انتخابات میں بلا نہیں رہا ہے اور اب مقابلہ تیر اورشیرمیں ہوگا، بلاشبہ بلا مقابلے کی دوڑ سے نکل چکا ہے، لیکن تحریک انصاف مقابلے میں موجود ہے اور جس تیزی کے ساتھ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے نام اور نشانات عوام تک پہنچ رہے ہیں، اس میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف کے امیدوار بے نشان ہو گئے ہیں،پی ٹی آئی امیدواروں کے جو بھی نشان ہوگا ، وہ تیر اور شیر کے مقابلے میں موجود رہے گا، یہ بعد کی بات ہے تحریک انصاف کی طرف سے کھڑے کئے گئے آزاد امیدوار کتنی بڑی تعداد میں جیتتے ہیں، اس وقت جس طرح کا رجحان دیکھا جارہا ہے ، اس میں یہ امکان بہرطور رہے گا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ لوگ بڑی تعداد میں جیت کر بازی پلٹ بھی سکتے ہیں۔
اگراس بار عوام خودفیصلہ کر نا چاہتے ہیں توعوام کو نہ صرف فیصلہ کر نے دیا جائے ،بلکہ اُن کا فیصلہ مانا بھی جائے، ملک عزیز پہلے ہی سیاسی ہنگاموں سے دو چار ہے ،اس میں غیر شفاف انتخابات بگاڑ میں مزید اضافے کا ہی سبب بنیں گے ، اس لیے عوام کی رائے بدلنے کی کوشش کر نی چاہئے نہ ہی عوام پر زور زبر دستی کے فیصلے مسلط کر نے کی کوشش کر نی چاہئے ، اب جبکہ عام انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے ،انتخابی میدان میں یکساں مواقع تو فراہم نہیں کیے جاسکتے ،لیکن اگر آزادانہ منصفانہ انتخابات تر جیح ہوں تو اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ،عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جاسکتا ہے ،عوام جسکا چاہیں انتخاب کریں اور جسے چاہیں مسترد کر دیں ، اس میں ہی سب کی بہتری ہے ۔