تقدیر پر ایمان کامل کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے 80

ایک اللہ ایک نبی کی یہ امت مسلمہ،شیعہ سنی تفکرات میں بٹی اسلام دشمن امریکہ کی غلام بن چکی ہے

ایک اللہ ایک نبی کی یہ امت مسلمہ،شیعہ سنی تفکرات میں بٹی اسلام دشمن امریکہ کی غلام بن چکی ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

1973حرب عرب اسرائیل میں،یہود و نصاری اسلام دشمن حربی قوتوں کو, دن میں تارے دکھانے والی، عالم کی اولین ایٹمی قوت ملک پاکستان اب اسی اسلام دشمن صاحب امریکہ کے اشاروں پر، تگنی کا ناچ ناچتے ہوئے، اپنے برادر ملک ایران پر فوج کشی کرنے پر مجبور ہےایک وقت تھا پاکستانی افواج دشمن اسلام یہود و نصاری قوتوں کے لئے خوف و دہشت سے لئے جانے والا نام تھا۔ پاکستانی سرحد سے 3,300 کلومیٹر دور ہونے کے باوجود 1973 ان ایام میں پاکستانی بمبار طیاروں کی ہلاکت خیز مداخلت بعد،عرب اسرائیل جنگ رک پائی تھی۔ اور دنیا شاہد ہے ان ایام اسرائیل کے 11 بمبار طیارے جو تباہ ہوئے تھے

وہ سب کے سب پاکستانی افواج نے مار گرائے تھے۔ ایمانی جہادی جذبات سے سرشار،اس وقت کے پاکستان اور 50 سال بعد والا آج کا پاکستان کتنا بدل گیا ہے نا؟ پورے 100 دن تک اسرائیل وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے، تیس ہزار کے قریب معصوم فلسطینی عورتوں بچوں کو شہید کرتا رہا، گھر کی چھت سے محروم زخمی فلسطینیوں کو اناج پانی دوائی علاج تک سے محروم، ہر اقسام کے مقاطعہ والے قید وبند، ٹھٹرتی ٹھنڈ میں مرتے، دم توڑتے،چھوڑ دیا گیا تھا۔ جسے نہ پاکستانی افواج دیکھ پائی نہ انہوں نے فلسطینی بھائی بہنوں کی مدد کرنے میں پہل کی۔ یہاں تک کی فلسطینی لیڈر اسماعیل ہانیہ نے، یہ کہہ کر تک، پاکستانی افواج کے قلب و اذہان کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ “بھلے ہی پاکستان، اسرائیل فلسطین جنگ میں نہ کودے، لیکن اگر “اسرائیل فلسطینیوں پر بمباری بند نہیں کریگا

تو، ہم جنگ میں کودنے پر، مجبور ہو جائیں گے، یہ عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت پاکستانی افواج فقط دھمکی بھی دے دے تو، اسرائیل فلسطین پر بمباری روک دے گا” لیکن اس وقت بھی پاکستان، آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بجائے ، اپنی اس مردہ ضمیری کو مصلحت کا نام دئیے، خواب خرگوش سے تک نہ جاگ پانے کی اداکاری کرتا رہا۔ صرف اس لئے کہ اولا” 1973 میں ملک پاکستان کا رزاق اور مشکل کشا تو اللہ رب العزت کی ذات واحد تھی، ثانیاً ملک و وطن کا دوسرا رزاق ثانی مملکت سعودی عرب کی مدد کی گوہاڑ و التجا پر اسوقت پاکستانی افواج اسرائیل کے خلاف لڑنے پہنچی تھی،

لیکن اب کے حالات میں، ایک طرف مملکت سعودی عرب کی طرف سے فلسطینیوں کی مدد پر سعودی من و سلوی ملنے کی امید نہ تھی تو دوسری طرف، پاکستانی معشیت و سلامتی،اسلام دشمن صاحب امریکہ کے ہاتھوں میں، محافظان ملک پاکستان کو نظر آتی ہے۔ اسی لئے تو محافظ پاکستان سربراہ کا والی، حامل قرآن ہوتے ہوئے بھی، وہ پاکستان پر حکومت کیسے کی جائے، صاحب امریکہ سے احکام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔
موجودہ دور کی حرب و جنگ میں، ہر ملک اپنے اپنے دشمن ملکوں میں، ان ملکوں کے خلاف اپنے ایجنٹ کے طور،کچھ حربی قوتوں کو سرگرم عمل رکھا کرتے ہیں جسے وہ اپنے پروکسی وار فوجی ہرا دل دستہ سمجھتے ہیں تو اس ملک والے اسے، دہشت گرد تنظیموں کا نام دیتے پائے جاتے ہیں۔ ہر ملک کی اپنی آپنی استعداد کے اعتبار سے، اپنے آس پڑوس و دور کے ملکوں میں، بے شمار ایسے حربی دستے یا پروکسی وار بریگیڈ ہوا کرتے ہیں۔ اس معاملے میں صاحب امریکہ نے، پورے عالم کے، 80 ممالک کے معشیتی مراکز،اور مضبوط ترین ممالک کے آس پاس،انکے خلاف اختلاف والے گٹھ بازوں پر مشتمل، 750 اپنے فوجی دستے متعین کر رکھے ہیں،

اور پورے عالم کو اپنی فوج کشی کے ڈر سے ڈرائے دھمکائے، پورے عالم پر اپنی دہشت گردانہ حکومت قائم کئے، پورے عالم کے معشیتی من و سلوی سے مفت میں استفادہ حاصل کئے جاتے ہیں۔ عالمی سربراہی میں اسے ٹکڑ دینے والے روس کے لئےیوکرین تو،مستقبل کے عالمی معشیتی اقتدار سنبھالنے والے،چین کے لئے تائیوان،تو عرب ممالک میں موجود من و سلوی پیٹرول دولت پر ناجائز قبضہ و حصول مفت کے لئے ،صاحب امریکہ نے جہاں مختلف عرب ملکوں میں اپنے 6 بڑے فوجی دستے قائم کئے ہوئے ہیں

وہیں پر ایک سوچی سمجھی عالمی، اسلام دشمن سازش کے تحت، عالمی حرب ثانی بعد، 1947 میں عرب ممالک کے درمیان زبردستی اسرائیلی مملکت قائم کرتے ہوئے،2 لاکھ باقاعدہ تربیت یافتہ افواج اور 5 لاکھ جزوقتی ریزرو افواج پر مشتمل، ایک بہت بڑے دہشت گرد ملک کی صورت، اپنا فوجی ٹھکانہ بناتے ہوئے، ان عرب ملکوں کونکیل ڈالے، ان سے، آپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہوئے، عرب ممالک کو رزاق دو جہاں کی طرف سے عطا،من و سلوی پیٹرو دولت پر،اپنا حصہ محجوز رکھا ہوا ہے۔ اس اقسام کی دہشت گردی والی حرب سازی ہی کو، اپنی جنگی حکمت عملی قرار دئیے جانے والے تہذیب یافتہ اسلوب کو دیکھتے ہوئے،

وقت رسول اللہ ﷺ موجود، 2 عالمی حربی قوت روم و فارس میں سے ایک،ایرانی شیعہ حکومت، جو بعد رسول اللہ ﷺ، قائم ہوئےخلافت راشدہ سےخلافت عثمانیہ تک، اسلامی قوت ہی کے ایک حصہ کے طور جو تھی،حرب عالم دوم بعد، سنی حکومتی شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے خلاف شیعی افکارغالب آتے آتے، 11 فروری 1979 شیعہ خمینی انقلاب کی صورت، ایرانی شیعہ حکومت، عالم کے حربی منظر نامہ پر وجود میں آچکی تھی۔اس نؤمولود شیعہ ایرانی حکومت سے، سنی عرب ممالک کو ڈرائے،ان عرب ممالک کو ایران سے برگشتہ کئے،ان عرب حکمرانوں کے ایران پر حملہ کئے، جو شیعہ سنی منافرت کی داغ بیل اس وقت صاحب امریکہ نے ڈالی تھی اوراللہ رب العزت کے عطا کردہ پیٹرو ڈالر سے مالامال مال اس دولت بے بہا سے، طاقت و قوت پائے، یہ عرب حکمران، عراق کے صدام حسین کو آگے کئے،22 ستمبر 1980،ایران عراق جنگ جو شروع کی گئی تھی۔ جو بظاہر شیعہ حربی قوت کو ختم کرنے کے نام سے شروع ہوتے ہوتے،جہاں ایرانی شیعیوں کو جہادی جذبات سے لبریز کئے، علاقے کی سب سے بڑی حربی قوت بننے کا راستہ ہموار کیا تھا، وہیں پر، عالمی اسلام دشمن سازش کنندگان نے،عرب حکمرانوں کی مدد ہی کے بہانے سے، افغانستان، عراق، شام، لیباء اور یمن کے کروڑوں مسلمانوں کو شہید کئے، اس پورے خطہ ہی کو تباہ و برباد و تاراج و کر کے رکھ دیا تھا۔

شیعہ ایران کے خلاف عربوں کی مدد کے بہانے،صاحب امریکہ عرب خطے کے اپنے وقت کے “شیر صحراء” مشہوراپنے اپنے ملک عراق و لیبیا کو ترقی پزیری کے معراج پر پہنچانے والے صدام و قذافی سے محروم کئے، اس عرب خطہ کےپیٹرول ذخائر پر قبضہ کئے، رزاق دو جہاں کے من و سلوی کی صورت, عربوں کو دئیے, مال دولت پر،سابقہ کئی دہوں سے صاحب امریکہ کا قبضہ رہا اور وہ مفت میں اس دولت بے بہا سے استفادہ حاصل کرتا رہا۔ صاحب امریکہ ہی کے نقش قدم پر، امریکی یلغار سے تباہ و برباد ہوئے،عراق و یمن شام و لبنان، انہی عرب علاقوں کے نوجوانوں کو عسکری تربیت و مدد فراہم کئے، ایران نے امریکہ کے خلاف ان علاقوں میں اپنے نظریاتی عسکری ہرا دل دستے قائم کئے،اب خلیج عرب و فارس اس خطہ کا اپنے آپ کو، اکلوتا سلطان ثابت کیا ہے۔

پورے عالم پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے ہی کے لئے، عالمی یہود و نصاری اسلام دشمن سازش کنندگان کی حکمت عملی کے حصہ کے طور،بٹوارہ ھند و پاک کے وقت، کشمیر کا تنازعہ جہاں باقی رکھا گیا تھا ۔کچھ اسی طرح پاکستان کے ایک حصہ بلوچستان کے کچھ ضمیر فروشوں کو پاکستان کے خلاف ہمہ وقت حالت حرب میں رکھےآزادی بلوچستان تحریکیں یا دہشت گرد تنظیمیں قائم کی گئی تھیں، آزادی پلوچستان تحریک مختلف ناموں سے، سرگرم عمل جو یے اس میں سے جہاں کچھ تحریکوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اسی طرز ایران کے حصہ کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں پاکستان حمایت یافتہ تحریکیں بھی وہاں ایران کے خلاف سرگرم عمل ہیں جو ٹک ٹو ٹیک وقت وقت سے ایران و پاکستان کے لئے، وقت ضرورت اپنی حربی جولانی دکھانے کا موقع فراہم کرتی رہتی ہیں۔ اس خطہ پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے، یہود و ہنود و نصاری سازش کندگان نے بھی،آپنی مالی مدد سے، ایک حربی تحریک سرگرم عمل رکھی ہوئی ہے

۔ اب کے تازہ اسرائیل فلسطین تناع پس منظر میں، یمنی حوتیوں کے،فلسطینیوں پر اسرائیلی ناکہ بندی پابندی سے ہونے والے نقصان،بھوک فاقہ، افاقہ ہی کے لئے،خلیج احمر باب المندب پر، اسرائیل جانے والی کمک و کھان پان پر حملے کر، اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالنے کا، متاثر ترین اقدام جو یمن نے کیا ہے، اس سے جہاں یہودی معشیت متاثر ہوئی ہے وہیں پر عالم کی ایک بہت بڑی معشیتی و حربی قوت، بھارت اپنے فکری و شراکتی پارٹنر اسرائیل سے،آپنی تجارت باقی رکھنے، نیر خلیج احمر بحری راستے سے پرے، ایرانی بندر گاہ شاہ بہار بندرگاہ سے روس سے ہوتے ہوئے، یورپی ممالک تک اپنی معشیتی راہ داری شروع کرنے،بھارت و ایران کے حالیہ طہ پاتے سمجھوتوں کو سبوتاز کرنے، اسرائیل و امریکہ کی تازہ شازش کے نتیجہ میں، پاکستان بلوچستان میں موجود انکے مدد یافتہ تحریک والوں سے، ایرانی افواج پر جو حملے کروائے گئے تھے،اس سے نپٹنا جہاں ایران کے لئے ضروری تھا،وہیں عالمی اسلام دشمن یہود و نصاری سے،ارض فلسطین پر دو دو ہاتھ لیتے پس منظر میں، برادر ملک پاکستان کی سرحد پر ایک اور محاذ کھولنے سے احتراز کرنا ہی ایران کے لئے اچھا عمل تھا۔ لیکن عالمی اسلام دشمن اسرائیل و امریکہ سے دو دو ہاتھ لینے کی ہمت کرتے، ملک ایران کی حکمت علی وہی بہتر جانتے ہیں۔ ہوسکتا ہے

برادر ملک ایران و پاکستان کی اسرائیل و امریکہ کو الجھن میں ڈالتے،انہیں خوش کن غلط فہمی میں رکھنے کی یہ کوئی حکمت عملی ہو۔ یا اپنی اپنی سرحدوں کے اندر برادر ملک کے دشمنوں سے نپٹنے کی یہ کوئی باہمی اتفاق حکمت عملی ہو۔ یہ اسلئے کہ ایرانی وزیر خارجہ کے مندرجہ ذیل اس بیان سے، جوانہوں نے پاکستان پر میزائل حملہ کرنے سے قبل پاکستانی حکام کو اعتماد میں لینے کی بات جو کہی ہے، وہیں پر پاکستان نے بھی ایران کے اندر گھس کر، اپنے دشمن جہادی گروپ اڈوں کو تباہ و برباد کرتے ہوئے عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہوئی ہے۔ عوامی سطح پر یہ حکمران کچھ بھی کہیں کریں،

اندرون خانہ کچھ اور ہی کچہڑی پکا کرتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں، پاکستانی انتظامیہ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات سے جس طرح سے عدلیہ کا استعمال کر،عوامی رہنما عمران خان اور انکے بڑے لیڈروں کو انتخابی دنگل سے باہر کئے، سابقہ تیس چالیس سال ملک و وطن کے ریسورسز کو لوٹنے والے شرفاء وزرداران کے لئے سیاسی بساط جیتنا آسان کیا ہے،اس پر احتجاج کرتے سڑکوں پر نکلنے والے کروڑوں عوام کا دھیان بھٹکاتے،عوام کو ملکی افواج کی قدر دانی کرنے پر مجبور کرتی کوئی ملکی انتظامیہ کی سازش تو نہیں ہے۔ کچھ بھی ہو اللہ ہی خیر کا معاملہ کرے اور ایران و پاکستان دو برادر ملکوں کی یہ رنجش و دشمنی جلد ہی ختم ہوجائے۔

*جو بظاہر نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے*
موجودہ فلسطین اسرائیل تنازع فقط دو دشمنوں کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل نہیں ہے۔ بلکہ عالم کی سرداری پر قبضہ جمائے رکھنے،چائینا و روس کو کمزور کرنے کی، صاحب امریکہ کے دم توڑتے وقت کی یہ آخری خواہش و کوشش ہے۔روس کو یوکرین پر فتح یاب ہونے سے روکنے میں جہاں صاحب امریکہ ناکام ہورہا ہے،وہیں عالمی اقتصادیات پر،اپنی گرفت مضبوط کرتے چائینا کو، تائیوان کے بہانے کمزور کرنے کا وہ جہاں متمنی ہے،وہیں چائینا اور روس بھی، صاحب امریکہ سے اس کی عالمی چودراہٹ چھیننے، بے تاب تڑپ رہے ہیں۔ اسی لئے 500 ارب کی امداد سرمایہ کاری کئے، چائینا ایران کو صاحب امریکہ کے مقابلے زور آور دشمن کے طور تیار کرچکا ہے۔وہیں پر 1979 اقتدار سنبھالے وقت سے،عربوں کو اسکے خلاف جنگ پر آمادہ کئے، عراق ایران جنگ اور پھر یمن سعودی جنگ چھیڑے ایران کو کمزور کرنے کی صاحب امریکہ کی متواتر کوشش سے، پہلے ہی سے ایران جو پیچ و تاب کھا رہا تھا۔

دوسری طرف سعودی ایران تنازع درمیان سینڈوچ بنا یمن، سابقہ آٹھ نو سال سے ہمہ وقت حالت حرب میں رہتے،اپنے میں ایمانی جہادی، جوش و ولولہ انگڑائی لیتے پاتے، وہ بھی حرب و جنگ کا ماہر کھلاڑی بن چکا ہے۔ اس بحر احمر کے ایک کنارے پر آباد عرب ملک مصر اس بحری راستے سے ہونے والی، عالمی تجارت سے سالانہ دس بلین ڈالر جہاں مصر کما رہا ہے وہیں اسی بحر احمر کے دوسرے تنگ ‘باب المندب’ کنارے پر واقع یمن،پیسے پیسے کو محتاج، اس خطے کا غریب ترین ملک ہوکر رہ گیا ہے۔

ایسے میں دشمن اسلام اسرائیلی افواج کے قید و بند میں رکھے گئے 20 لاکھ فلسطینیوں کو، دوا پانی سے محروم مقاطعہ سے آزادی دلوانے، اسی راستے سے اسرائیل کو جانے والی کمک و خوراک کو بند کرنے کی یمن کی مخلصانہ کوشش،ایک طرف برادر ملک فلسطین کی مدد کے طور جو دیکھی جارہی ہے تو وہیں پر مستقبل میں باب المندب سے گزرنے والے مغربی تجارتی جہاز رانی سے،بطور گزرگاہ ٹیکس کچھ وصول کرتے ہوئے اہنے ملک یمن کی معشیت سدھارنے کی یمنی حکام کی یہ خواہش بھی ہمیں جائز لگتی ہے۔ جہاں اسلام دشمن یہود و نصاری جہاز رانی کمپنیاں اس راستے تجارت سے اربوں کھربوں کمارہی ہیں، قدرت کے بنائے باب المندب اس تنگ راستے سے ہوتی تجارت سے، کچھ حد تک یمن کے مستفید ہونے کو جائز ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ دوران، فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں شرمناک شکشت فاش باوجود، امریکی حربی مدد کے بھروسہ پر، اسرائیل کے اپنے سابقہ گریٹر اسرائیل کےمنصوبے پر عمل درآمد کرنے کا اسکا تازہ اعلان اور اسرائیل کے تقریباً شکشت فاش کھائی جنگ کو،جیت میں بدلتے بعض پہلو کے طور ایران پاکستان موجودہ تنازع کو کیا لیا جانا ضروری نہیں ہے؟ جس طرح آجکل پاکستانی سائبر میڈیا پر گردش کررہی خبروں کے مطابق، ” ھند پاک کارگل جنگ پر، 23 اکتوبر 1999 حامد میر کا کالم، جس میں پاکستان کی جیتی ہوئی کارگل جنگ کو، امریکہ کے کہنے پر، نواز شریف نے شرمناک ہار میں تبدیل جو کیا تھا اور 30 اکتوبر 1999
ہندستان ٹائمز میں طبع ہوئے سابق پرایم منسٹر اندر کمار گجرال کے بیان کہ “نواز شریف نے،پی ایم پاکستان ھاؤس سے آدھی آدھی رات کو فون کرتے ہوئے، بھارت کے پی ایم سے کشمیری مجاہدین کی نقل و حرکت پر تبادلہ خیال کیا تھا نیز قائد اعظم پاکستان کے، “ملک اسرائیل کو عالم کے نقشہ پر قبول کرنے کے بجائے، صرف اکلوتی فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کیا جائیگا”، اس رہنما اوصول کے خلاف، نواز شریف پر لکھی گئی کتاب رنگیلا وزیر اعظم میں، 19 نومبر 1999 کو جنگ اخبار میں باقاعدہ طبع شدہ خبر، نواز شریف فیملی کپڑا صنعت کے لئے،
ایک ارب روپئیے مالیت
مشینری اسرائیل سے خریدنے کے دعوہ جو کئے گئے ہیں،اس خبر کو آج کے پاکستانی سیاسی پس منظر میں، عوامی طور پاکستان کے سب سے مقبول ترین سیاسی رہنما سابق وزیر اعظم عمران خان کو،صاحب امریکہ کے اشاروں پر، ناچنے سے انکار بعد، امریکی رجیم چینج آپریش کرتے ہوئے، انہیں اقتدار سے بے دخل کئے، جھوٹے کیسز میں پابند سلاسل رکھے،اور دیش کی عدلیہ عالیہ پر بھی دباؤ برقرار رکھے، حالیہ انتخابات سے عمران خان اور انکی پارٹی کے سینئر لیڈروں کو انتخابی دنگل سے زبردستی باہر رکھے،اور اپنے زمام حکومت میں حکومتی ریسورسز کی لوٹ کھسوٹ کے معاملے میں، عدلیہ عالیہ میں چل رہے کیسز میں،بھگوڑے قرار دئیے گئے،سابق پرائم منسٹر نواز شریف کو پاکستانی انتظامیہ نے، جس طرح مسند اقتدار اعلی پر بٹھانے کا انتظام کیا ہے، ان تمام کڑیوں کو ملانےپر،چند ہزار فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں عالم کی چوتھی بڑی حربی قوت اسرائیل کے شکت فاش کھاتی جنگ کو، جیت میں تبدیل کرتے،

پاکستان ایران موجودہ تنازع کو کیا لیا جانا ضروری نہئں لگتا ہے؟ کیا اسرائیل و امریکہ نے نواز شریف کے اپنے تعلقات کا بے جا استعمال کر، پاکستان سرحدوں میں موجود بلوچوں کو اشارہ کئے، ایرانی افواج پر جو سابقہ حملے کروائے گئے تھے، جس کے رد عمل پر ایران نے پاکستانی حکام کو اعتماد میں لئے پاکستان کے اندر میزائل مارے، اپنی افواج کے خلاف کاروائی کرنے والے بلوچی دہشت گردوں کو ختم کرنے کا دعوہ کیا ہے۔
آزاد ملک پاکستان پر ایران کے میزائل حملے کے بدلے میں، پاکستان کا ایرانی سرحدوں کے اندر گھس کر حملہ کرنا اور اس جوابی حملے کے بدلے میں ایرانی افواج کا پاکستانی سرحد پر جمع ہونا، شکشت فاش کھاتی اسرائیلی جنگ کو ایران پاکستان جنگ میں تبدیل کرتے ہوئے، اسرائیل کو بچانے کی اور فلسطینی آزادی کو ایک مرتبہ پھر التوا میں رکھنے کی عالمی اسلام دشمن سازش کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔ ان تمام نظریات اس میں سچائی کیا ہے اس کا تو اللہ رب العزت اور سازش کنندگان کی علم و آگہی ہے ۔اس تفکر میں جن حربی سازشی زاویوں پر ہم نے اپنی آرا پیش کی ہے وہ فقط ہمارا نظریہ ہے۔

آخر میں ہم بس اس نکتہ نظر کے متمنی ہیں، یہود و نصاری عالمی سازش کے چلتے، سابقہ نصف صد سے پورے عالم کے شیعہ سنی ایک دوسرے کے خلاف جو صف بستہ تھے،لادین اشتراکی نظریات والے چین ہی کی کوششوں سے،ابھی سال بھر پہلے شیعہ ایران و سنی سعودی عرب مابین مفاہمت ہونے کی وجہ سے، اہبے شیعہ سنی تفکراتی اختلافات کو پرے رکھتے ہوئے، امت مسلمہ جو عالمی سطح پر اکھٹی ہورہی تھی کاش کہ یہ شیعہ سنی مفاہمت تادیر قائم رہے اور جلد بہت جلد سابقہ پچھتر سالوں سے التوا میں رکھے مسئلہ فلسطین کا پر امن حل عالم کے سامنے آجائے، وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں