تقدیر پر ایمان کامل کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے 48

رام رام ستیہ ہے یعنی رام کا رام ستیہ ہیں گویا رام بھگوان نہیں تھے انکا بھی کوئی بھگوان تھا

رام رام ستیہ ہے یعنی رام کا رام ستیہ ہیں گویا رام بھگوان نہیں تھے انکا بھی کوئی بھگوان تھا

نقاش نائطی
۔ +966562677707

*وشؤگرو ہندستان کے لئے نفرتی نہیں بلکہ محبت اخوت شانتی والا ماحول چاہئیے**رام جنم بھومی بتاکر ھتیائی گئی جگہ پر،کیا رام مندر بنایا گیا ہے؟**مسلمانوں کے آسمانی کتاب کا پہلا چاپٹر سورہ فاتحہ ہے اس میں 7 آیتیں ہیں اور ھندؤں کے گایتری منتر میں بھی 7 کھنڈ ہیں سورہ فاتحہ کی سات آیتوں کو سچے مسلمان اپنی روزانہ پڑھی جانے والی پانچ وقت کی نمازوں 17 مرتبہ پڑھنے والوں کی اکثریت کو نہ عربی آتی ہے

نہ سنسکرت اور جن کو عربی آتی ہے، انہیں سنسکرت نہیں آتی ہے اور ھندؤں میں سے اکثریت کو جو اکثر گایتری منتر پڑھتے رہتے ہیں انہیں بھی نہ سنسکرت آتی ہے نہ عربی آتی ہے اور جو کچھ فیصد لوگ جنہیں سنسکرت آتی ہے انہیں عربی نہیں آتی ہے۔ اور جنہیں عربی اور سنسکرت دونوں زبانیں آتی ہیں انہیں، ھندو مسلمان نہ صرف دونوں دھرم کے ماننے والے بلکہ دونوں دھرم کے دھرم گرو مولانا بھی انکی عزت کرنے ہر مجبور ہوتے ہیں ۔

یہ اس لئے کہ عربی و سنسکرت دونوں زبانیں ایشور اللہ کی آسمانی کتاب قرآن مجید اور وید گرنتھ کی عربی اور فارسی زبانیں ہیں۔ شاید اسی لئے،ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکئولر اثاث ہندستان میں، آزادی ھند سے پہلے انگریز راجیہ میں قائم ہوئی لکھنؤ یونیورسٹی میں، 160 سال پہلے اورینٹل اسٹڈیز ان عربک، پرشین اینڈ سنسکرت پڑھائی جاتی تھی اور اسوقت پنڈت اور مولانا ساتھ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گیان بانٹتے تھے۔

آج کے آزاد بھارت میں مذہب کے نام منافرت پھیلاتے آپنی گندی سیاست چمکاتے پس منظر میں، اسی گیان کی اب ضرورت ہے جس سے ھندو مسلمان کے درمیان منافرت ختم کی جاسکے اور ھندو مسلمان کے درمیان ایسی محبت پیدا کی جاسکے مسلمان سناتن دھرمی آسمانی وید گرنتھوں کی سنسکرت زبان سیکھیں تو ھندو بھی خاتم الانبیاء یعنی کل کی اوتار پر اتاری گئی پربھو ایشور اللہ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کی عربی زبان پر عبور حاصل کرسکیں۔*افسوس ہوتا ہے اسی ھندؤں کے کل کی اوتار خاتم الانبیاء سرور کونین محمدمصطفی ﷺ کے دھرم کی تمام تر قانونی کاغذات رکھنےوالی پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کو دہشت گردانہ انداز شہید کرنے والی نفرتی سوچ کے آگے جھکتے ہوئے

،دیش کی سپریم کورٹ نے جس طرح قانون و عدلیہ کے اعلی مقام و اقدار کو پرے رکھ کر،بابری مسجد کی زمین قاتل بابری مسجد والوں ہی کے سپرد کی تھی (آج کے وزیر اعظم بذات خود 1992 بابری مسجد شہید کرنے والے شدت پسندوں میں آگے آگے نمایاں تھے) اور آج وہی پرائم منسٹر بھارت کے تمام تر اسی کروڑ ھندؤں کی آستھا والے چاروں مذھبی دھرم گرو شنکراچاریہ کو درکنار کر،صرف اور صرف اپنے گندے سیاسی مقصد بر آوری کے لئے نامکمل رام مندر کا افتتاح اسی قاتل بابری مسجد کے ہاتھوں کرواتے ہوئے، سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ کیا واقعتاً کئی سو سال سے بابری مسجد گنبد ہی نیچے رام جی پیدا ہوئے تھے کہتے ہوئے، ھندو مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کئے

،ہزاروں ھندو مسلمانوں کے بلیدان بعد حاصل کی ہوئی اصل جگہ پر، رام مندر بنانے کے بجائے، 3 کلومیٹر دور جو شاندار رام مندر بنایا گیا ہے جسکا افتتاح دھرم گرؤں کے ہاتھوں کرنے کے بجائے،قاتل بابری مسجد، قاتل گجرات ہزاروں بھارتیہ ناریوں کے خون سے رنگے ہاتھوں سے ہی، قبل از وقت افتتاح کیا جانے والا یہ مندر، کیا رام جی ہی کا جنم استھان مندر ہے؟ یا مستقبل کا مودی مہان مندر ہوگا؟ یہ اب بھارت کے 80 کروڑ سناتن دھرمی ھندؤں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہزاروں سالہ ویدک آسمانی سناتن دھرم والے گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کو بھارت پر باقی رکھنا ہے یا آرایس ایس، بی جے پی مودی یوگی کی، مسلم منافرت کو 2024 عام انتخاب میں دوبارہ چنتے ہویے معشیتی طور بھارت کو کنگال و برباد کرنا ہے*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں