فرق تفکر کا،للہیت کے لئے یا معشیتی دنیوی فوائد کے لئے*
نقاش نائطی
۔ +966562677707
آج سے چالیس پینتالیس سال قبل ہمارے ایک دوست ایوب دامدا، معاش کے لئے جرمنی گئے ہوئے تھے۔ ٹرک ڈرائیور کی حیثیت انکا جرمنی سے کمپنی کا مال لئے،اکثر لبنان آنا جانا ہوتا تھا۔ دو سال بعد بھارت واپس آئے تو ان ایام روزگار کے لئے سعودیہ جانے کے اچھے روزگار مواقع نظر آتے، انہوں نےایک اشتہار دیکھ انٹرویو دیا۔کامیاب ہوئے اور پاسپورٹ کے ساتھ کچھ رقم بھی سفریات آفس جمع کی گئی
اور سعودیہ جانے کی تیاری اور چرچے ہونے لگے۔ کچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ سعودی حکومتی قانون کی رو سے،وہ سعودی عرب جانے کے اہل نہیں ہیں۔ ان ایام سعودیہ ایرلائن ‘جی ایس اے’ زریں ٹریول ذکابھائی کے سعودی سفارت خانہ سے اچھے اور خوشگوار تعلقات تھے۔ان کی معرفت رسوخ لگانے پر پتہ چلا،کہ چونکہ ایوب کے پاسپورٹ پر،متعدد مرتبہ لبنان آنے جانے کے ٹھپے پڑے ہوئے تھے اور چونکہ لبنان سے اسرائیل صرف پاسپورٹ دکھائے، بغیر ٹھپے کے اسرائیل جانے کی چھوٹ تھی،اس لئے اس الزام کے تحت کے ممکنہ طور انہوں نے، اسرائیل کا سفر کیا ہوگا، انہیں سعودی عرب جیسی پاک سر زمین پر، روزگار آنے تک سے ممنوع قرار دیا گیا تھا
انہی ایام بھارت سے بہت زیادہ تعداد میں کفار و مشرکین بھی مملکت کی بڑی کمپنیوں میں روزگار پر رہتے،اپنی فیمیلی کے ساتھ یہیں پر مستقل سکونت پذیر تھے۔ چونکہ یہاں کی سرزمین پر انہیں،اپنے اپنے بھگوان سے لؤلگائے پوجا ارچنا کے لئے،کوئی مندر جانے کے مواقع نہیں ملتے تھے تو، اپنے ہی گھر پر پوجا ارچنا کے لئے،اپنے اپنے عقیدے والے بھگوان کی چھوٹی سی مورت،یا بھگوان کی صورت والی بڑی فریم،بڑی ہی عقیدت سے، اپنے سامان میں چھپائے، مملکت جب بھی لاتے تھے۔ کسٹم چیکنگ دوران ان زائرین کی ہزار التجا و درخواست باوجود، دینی حمیت سے سرشار کسٹم حکام، انہیں، انکے بھگوان کی مورت و تصویر، مملکت میں لانے سے نہ صرف منع کرتے تھے بلکہ انتہائی بے دردی کے ساتھ حرام حرام کہتے ہوئے، ان مورتیوں اور بھگوان کی تصاویر فریم کو، بلدیہ کے ڈبوں میں پھینک دیاکرتے تھے۔
یہی نہیں ان کسٹم حکام کی للہیت کا عالم یہ تھا،ہم سیدھے سادھے ھند و پاک مسلمانوں کے سامان میں سے، بریلوی عقیدت والے مزار کے فریم اور قبرپرستی والی چیزیں و مطبوعہ کتب تک حرام حرام کہتے بلدیہ برد کیے جاتے تھے۔یہاں سعودیہ رہتے ہونے،ہم نے ہمیشہ ان سعودیوں میں، بعض جنسی معاملات کی کوتاہیوں کے، انہیں ہمیشہ ہر اقسام کے شرکیہ اعمال سے ماورا،ایک اللہ کی توکل میں یکتا ہی پایا تھا۔جو ہم جیسے خود ساختہ مشرقی مسلمانوں کے یہاں، کسی بھی مصیبت و آفت دوران اپنے اپنے متوفی بزرگوں کی یاد کرتے، یا غوث پاک یا مشکل کشا کہنے کو معیوب تک نہیں سمجھا جاتا تھا
زمانے کی تغیر پسندی نے بہت بدلاؤ لایا ہے۔مملکت میں روزگار پر آئے ہم ہزاروں لاکھوں ھند و پاک کے مسلمانوں اور مشرکین میں بھی اور ہمارے ان کفیلوں کے انداز تفکر میں بھی۔ اسی کے دہے بعد ھندو و پاک بنگلہ دیش ہی کے ساتھ فلپائن چائینا و انیک افریقی یورپی ممالک تک، ہم لاکھوں تارکین وطن کی معرفت نہ صرف مال ثروت پیٹرو ڈالر پہنچتے ہوئے،
ہر سو معشیتی آسودگی پائی گئی تھی، بلکہ لاکھوں ہم تارکین وطن ہی کی وجہ سے، مملکت میں شاہ سعود کے زمانے والے مرحوم شیخ عبدالوہاب نجدی علیہ الرحمہ والا، للہیت سے لبریز، وحدت الوجود تفکرات سے پاک و صاف، شرک و بدعات سے ماورا،دین سلف وصالحین بھی،مملکت سعودی عربیہ سے،عالم کے کونے کونے تک پہنچ پایا ہے۔ جنوب ھند کرناٹک ساحل پر سابقہ ڈیڑھ ہزار سال سے،اہل عرب اہل نائطہ، بھٹکل و اطراف بھٹکل آباد منجملہ لاکھ سے زائد نفری پر مشتمل قبیلہ آل عرب، جو ھند و پاک بنگلہ دیش والے مشرقی مسلمانوں کے مقابلے، الحمد للہ آج بھی ،ایک حد تک شرک و بدعات سے پاک و صاف، سلف و صالحین والے اعمال صالحہ پر عمل پیرا مقلد شافعی طبقہ پایا جاتا ہے
وہ بھی اسی کے دہے سے قبل، بریلوی قبر پرستی والے اعمال قبیحہ میں مغلوب پایا جاتا تھا۔ آج ھند و پاک بنگلہ دیش کے ساتھ ہی ساتھ، عالم کے انیک ملکوں میں،ایک حد تک شرک و بدعات سے پاک، سلف و صالحین والا اقرب الی السنہ جو طبقہ جہاں جہاں بھی پایا جاتا ہے وہ یقیناً ہم تارکین وطن ہی کے، مملکت سے اپنے اپنے یہاں لایا گیا، تفکر اہل سلف ہے، جسے آج بھی مقامی مسلمان وہابی تفکر کہتے ہوئے ہمیں چڑائے،تنک کرتے،پائے جاتے ہیں
کسی نے کیا خوب کہا ہے گزرتے وقت کے ساتھ گرداب کے اثرات جو ہم پر پڑتے رہتے ہیں ان سے ہمارے تفکرات میں بھی نمایاں فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ہم تارکین وطن جہاں مملکت سے پیٹرو ڈالر کے ساتھ من و سلوی ہی کی شکل عقائد سلف و صالحین عالم کے کونے کونے تک پہنچا پائے ہیں، وہیں پراپنے معشیتی فائدے ،حب دنیا کے لئے عالم بھر کے خرافات بھی یہاں کے والیان حکومت میں ودیعت ہوتے،ہم نے پایا ہے۔ مالی منفعت تنگ دستوں کو،اپنے افکار بدلنے،مجبور ہوتے، ہم نے بارہا پایا ہے،
لیکن اللہ رب العزت کی طرف سے زیر زمین پائے جانے والی، بے بہا دولت، پیٹرول کے علاوہ دیگر معدنیات المونیم تانبا اور سونا بھی، اپنے بطن میں بےتحاشا رکھنے والے ملک کے حکمران، عالمی معشیتی معمولی منفعت کے لئے، اپنے سلف و صالحین کے اعمال صالحہ سے روگردانی کرتے ہوئے، اعمال قبیحہ کو اپنے یہاں رواج دینے لگیں تو ، اس حب دنیا کے متوالوں کو کیا کہا جائے۔ بس ہم دعا کرسکتے ہیں کہ وہ پاک پروردگار ہی،اپنی کم مائیگی باوجود، کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال تک دین اسلام کے اقدار و افکار کی حفاظت کرتے، آنے والوں کے ہاتھوں، ان معصیات کے شروع کئے جانےسے، انہیں آمان میں رکھے۔وما علینا الا البلاغ
چاہے جو بھی حیلے بہانے بتائے جائیں، لیکن جو وقت رسول اللہﷺ نہ صرف خود استعمال بلکہ بیع و شراء حرام کی گئی شراب اور اس پر مدینہ کی گلیوں میں بہائی گئی شراب کی بہتی ندی کی یادیں اور آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال بعد، اس ارض مقدس پرپہلی بارسرکاری اجازت سے بیچی جانے والی دوکان پر،کچھ ایسا سائن بورڈ ہونا چاہئیے۔ “محل خمور بالتصریح مملکت اسلامیہ سعودی عربیہ”
کچھ ایسا ہی پاکستان کی شراب کی دوکان میں پہلے لکھا جاتا تھا “شراب کی دوکان لائسنس یافتہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان”
شراب کی دوکان لائسنس یافتہ مملکت اسلامیہ سعودی عربیہ