تقدیر پر ایمان کامل کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے 47

اس(اسلام) میں، سلامتی کے ساتھ(پورے کےپورے) داخل ہوجاؤ. (الحجر 46)

اس(اسلام) میں، سلامتی کے ساتھ(پورے کےپورے) داخل ہوجاؤ. (الحجر 46)

نقاش نائطی
۔ +966562677707

عالم کی آبادی کے ایک تہائی حصہ ہم 300 کروڑ مسلمانوں کی اکثریت کیا دین حنیف یا دین سلف و صالحین پر قائم دائم ہیں؟اسوئے رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین والے عملی جذبہ ایمانی سے پرے، صرف نماز، روزوں والی اعمال کی محنت کی فکرکرنےکا نتیجہ دیکھئے، کیسے اللہ کے رسول ﷺ کی پیشین گوئی مطابق یہ قوم محمدیہﷺ، بنی اسرائیل سے بھی ایک قدم آگے بڑھے، ایک کلمہ ایک آخری نبی محمد ﷺ کے امتی ہوتے ہوئے بھی، ہم بنی اسرائیل کے 72 فرقوں سے ایک زاید، کیسے تہتر فرقوں میں آسانی سے بٹتے چلے جارہے ہیں۔ ہم دنیا کی ایک تہائی کثرت تعداد والی، سمندر کے جھاگ بمثل تقریباً 300 کروڑ مسلم آبادی ہونے کے دعوے باوجود، ہم یہود و ہنود و نصاری سے بھی گئے گزرے ہوکر رہ گئے ہیں۔
اللہ کے رسول خاتم الانبیاء ﷺ کے منصب تمکنت پر براجمان ہونے سے پہلے والے، لمبے 40 سال،جس ایمانت داری، دیانت داری، راست گوئی، چھوٹوں سے شفقت تو، بڑوں کی عزت، ڈنڈی مار تجارت سے پرے قول و عمل کی سچائی اور سب سے بڑھ کر ،خود رسول اللہ ﷺ کےمکرر متبہہ کئے،لاتشرک باللہ کے حکم باوجود، جانے انجانے میں ہم مسلمانوں کی اکثریت، اہل سنہ و الجماعہ ہی کے نام نامی سے، کس قدر دلیرانہ شرکیہ اعمال کو، دین اسلام کے حصہ کے طور کرنے لگے ہیں،یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔

نماز روزے کی اہمیت جہاں یے، وہیں پر، اپنی پوری زندگی سختی سے عمل کر بتائے گئے دیگر اعمال صالحہ کی،اسلام میں کیا اتنی وقعت نہیں رہی ہے جتنی نماز روزے کی اہمیت باقی رکھی گئی ہے؟ پھر کیوں ڈنڈی مار دھوکہ دہی والی تجارت، نیز اپنی عملی زندگی میں جھوٹ، افترا پروازی، تہمت و الزام تراشی، وعدہ وفائی اور سب سے اہم لاتشرک باللہ والی،اللہ کی ذات کے قادر مطلق رزاق کل مکان، شافی کل الامراض و حل المشکلات ہونے کا درد و تڑپ، جو ہم مسلمانوں میں اپنے 63 سالہ سخت عمل سے ودیعت کیا گیا تھا،آج ہم مسلمانوں کی اکثریت اپنے میں، وہ تمام اوصاف کہاں پاتےہیں؟

بچپن میں پڑھائے اور رٹائے گئے چھ کلموں سے ہماری عملی زندگی کو، اسلامی سانچے میں مکمل ڈھالنے کی جو سعی و کوشش کی گئی تھی، آج والی دینی دعوتی محنت کے چھ باتوں پر عمل پیرائی کی تڑپ و کوشش میں، ہم مسلمانوں کی اکثریت، ان چھ بنیادی کلمے کی عملی معنوئیت سے ماورا ہیں ہی، ہم میں کتنے کلمہ اولی کی عملی معنویت پر کھرے اترتے پائے جاتے ہیں؟ طفل مکتب میں ذہن نشین کرائے گئے،اللہ رب العزت کے،عرش معلی پر مستوی یا براجمان ہونے کے نظریہ سے روگردانی کر، وحدة الوجود والے کفریہ عقیدے کو، طریقت والی شریعت کے مادھیم سے، دین اسلام کا حصہ بنالئے جانے کی وجہ سے، ہم مسلمانوں کی اکثریت میں، بھارتیہ مشرکین ھندو قوم کے کروڑوں بتوں کی پوچا ارچنا جیسے، ہزاروں بزرگان دین کی قبروں کی پرستش والے دین حنیفئیت کو، دین قیم یا دین حنیف کے حصہ کے طور درجہ دئیے، کثرت تعداد والے ہم 300 کروڑ مسلمانوں کو،پیشین گوئی رسولﷺ،سمندر کے جھاگ مانند، بے وقعت چھوڑ گئے ہیں۔

بچپن میں استاد مرحوم نے کہا تھا اسلامی اقدار والے صالح اعمال پر سختی سے عمل پیرا، کثرت والی کوئی قوم ہے تو وہ مسیحی قوم ہے جو لاکھوں کی تعداد میں اپنے ویٹیکن سٹی میں، ایک بھی خرافاتی عمل سے ماورا ، موجود ہیں اسی لئے ویٹیکن سٹی میں پولیس و عدلیہ کی ضرورت نہیں پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی بہترین اوصاف والی عملی زندگانی کے کیا معنی؟ اگر بنیادی ایمان باللہ ہی سے وہ ماورا جی رہے ہوں تو؟ کیا یہی کچھ ہم مسلمانوں کا وطیرہ بن کے نہیں رہ گیا ہے؟داڑھی ٹوپی تسبیح کو تو، ہم نے دین کے اقدار حصہ کے طورباقی رکھا ہے، لیکن اسوئے رسول اللہ ﷺ کے عمل کردکھائے اوصاف رسولﷺ پر عمل پیرائی کے بغیر بھی،اپنے آپ کو پکے سچے مسلمان تصور کرتے ہوئے،

رزاق دوجہاں کی مدد و نصرت کو،اپنے لئے،لازم ملزوم کیا سمجھا جانے نہیں لگا ہے؟اسی لئے، ایسے تیسے،حرام حلال کی تمیز بنا،زندگی کے دن کاٹتے ہوئے،آپنی حرام کمائی سے پیٹ بھرتے وقت بھی، ہوٹلوں میں ذبیحہ حلال گوشت ڈھونڈتے ہم مسلمان ہوکر رہ گئے ہیں۔ تہتر فرقوں میں بٹی امت مسلمہ میں، معاشرے میں وہابی مشہور، اہل سلف و صالحین، اہل حدیثوں کے ساتھ، کچھ فیصد پکے سچے سنی مسلم گھرانوں کے علاوہ،خصوصا شمالی ہندستان کے اکثر علاقوں کے بشمول کیرالہ کے مسلمانوں میں، جہاں ھندوانہ جہیز،جوڑے،ہلدی کی رسم اور منھ دکھائی والے شرکیہ اعمال مکمل عود کر آچکے ہیں،

وہاں آسمانی کتاب قرآن مجید میں تحکمانہ انداز بیان کئے گئے، نساء اولاد کو اپنی ترکہ ملکیت سے محروم کئے، غیض و غضب خداوندی کو مدعو کئے، ہم مسلمان کیا نہیں جی رہے ہیں؟ ویسے نماز روزے، نیز داڑھی ٹوپی والے یہ شکیل بن حنیف کو،آخری نبی کے مقام پر متمکن تصور کرنے والے یہ خودساختہ،ایک حد تک پابند شریعت، مگر ایمان سے خارج یہ شکیلی مسلمان، کیا ہم خود ساختہ مسلمانوں سے بہتر دین اسلام پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتے ہیں؟

ہم خود ساختہ مسلمانوں سےکہیں زیادہ، ایک حد تک پابند شریعہ نظر آنے والے، وہ شکیلی مسلمان، خاتم الانبیاء وآلے نظریہ ہی سے ماورا جینے کی وجہ سے،خارج الاسلام ٹہرائے جاسکتے ہیں تو، لا تشرک باللہ کی مکرر وعیدرسولﷺ کے خلاف، قبر پرستی کرتے اور مرحومین کو قبروں میں زندہ تصور کرتے،انہیں حل المشکلات رزاقیت کے مقام تبریک پر متمکن کرتے،ان سے حاجت روائی کرنے والے یا کروانے والے خود ساختہ ہم مسلمان، مومن تو دور کی بات مسلمان بھی کیا باقی رہ جاتے ہیں؟

بعد الموت اخروی زندگی کے ساتھ ہی ساتھ پچاس ساٹھ سالہ ہماری دنیوی زندگیوں کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں پورے کے پورے اسلام کو نہ صرف قلب و ذہن کی اتاہ گہرائیوں سے ماننا پڑیگا بلکہ ایک حد اپنی اپنی بساط بھر کوششوں سے اس پر عمل پیرا بھی رہنا پڑے گا۔اللہ کے رسول ﷺ جس دین اسلام پر عمل کر،کثرت ازواج باوجود ان کے درمیان عدل و انصاف پروری سے،انکے پورے حقوق زوجین پورا کرتے ہوئے، رزق حلال کماتے، دینی اقدار کی بحالی اور اسکی ترویج کے لئے کفار کے ساتھ حرب و غزوات کرتے ہوئے،جو معاشرتی زندگی گزاری ہے وہ کوئی مشکل تر مراحل والی زندگانی نہیں ہے

۔ اسلام میں گدہ نشینی والی صوفیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔آج کے اس مادی ترقی یافتہ دور جدید میں بھی، پورے اخلاق و کردار والے سلف و صالحین کے دین حنیف پر کیسے جیا جاتا ہے؟ دیکھنا ہے تو 41 کلومیٹر لمبائی اور 6 سے 12 کلومیٹر چوڑائی والے 365 مربع کلومیٹر کل رقبہ والے چھوٹے سے علاقے والی،چاروں طرف سے دشمن اسلام،مسلح یہود سے گھری، عالمی اقدار اعتبار سے کھلی جیل مشہور، سب سے زیادہ گھنی آبادی والے غزہ فلسطین میں،مسلمان ہمہ وقت یہود سے حالت جنگ میں رہتے ہوئے بھی، کس قدر رسول اللہ ﷺ کے عمل کر دکھائے اخلاق و کردار پر عمل پیرا ہیں،

انہوں نے حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں، اپنے اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ اپنے حسن سلوک سے، جدت پسند عالم کو اسلامی اقدار سے بخوبی متعارف کروایا ہے۔ برصغیر ھندو پاک بنگلہ دیش کے ہم مسلمان ان کفریہ شرکیہ قبر پرستی والے اپنے اعمال سے بالکلیہ دستبردار ہوجائیں تو یقیناً ہم مسلمانوں میں ایسے شکیلی تفکرات والے کسی فرقے کو سر اٹھانے کی ہمت نہیں رہے گی، بلکہ ہمارے اطراف ہزاروں سال سے بسنے والے، قرآم مجید میں بتائے گئے،صہوف اولی یا زبرالاولین بمثل آسمانی ویدک دھرم کےماننے والے، سناتن دھرمی ھندو بھی، اپنے اصلی سناتن دھرم تعلیمات تمام تر مخلوقات کی پوجا ارچنا چھوڑ،ایک خالق و مالک دوجہاں کی پرسٹش کرنا، انکے لئے بھی آسان ہوجائیگا۔

جب چودہ سو سالہ ہم مسلمانوں میں،اہل سنہ و الجماعہ کے نام نامی سے، شیعیت رافضیت بریلوئیت والے، کفریہ شرکیہ قبرپرستی والے اعمال، عود کر آچکے ہیں تو پانچ دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ عمر والے سناتن دھرم میں، متعدد مخلوقات کی پوجا ارچنا کا عام ہوجانا کونسی بڑی بات ہے؟ خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ نے حجہ الوداع کے موقع پر تاقیامت آنے والے انسانوں میں، دین حنیف پہنچانے کی ذمہ داری جو ہم آج کےمسلمانوں پر ڈالی ہوئی ہے تو، ہمیں اپنے میں موجود دین حنفیت نیر دین شکیل بن حنیف کے گمراہ عقائد کے ساتھ ہی ساتھ، اسلامی صحیح عقائد والے چھ کلمات کے اثرات کم کرنے، ہم میں رائج کئے گئے چھ باتوں سے بھی اوپر اٹھ کر، ہمیں وقت رسول اللہﷺ اور انکے اصحاب رضوان اللہ اجمعین و خلفاء راشدین نیز سلف و صالحین والے دین حنیف ہی پر، اس وقت عمل کر بتائے تمام تر اقدار و اوصاف کے ساتھ، دین سلف و صالحین پر عمل پیرا رہتے ہوئے، اپنے عملی اسلامی معاشرت سے کفار مشرکین کو دعوت دین اسلام دیتے ہم پائے جاسکتے ہیں،وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں