86

جیسے عوام ویسے حکمران!

جیسے عوام ویسے حکمران!

ملک میں ایک مرتبہ پھر بڑے بڑے دعوئوں اور وعدئوں کی گو نج سنائی دیے رہی ہے ،لیکن تبدیلی کا نعرا کوئی نہیں لگا رہا ہے ، کیو نکہ تبدیلی کا نعرا لگانے والوں کا جو حشر کیا جارہا ہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیںہے ، یہاںسب ہی دیکھ رہے ہیں کہ عوام کے لاڈلے کو کیسے نکالا جارہا ہے اور اپنے لاڈلے کو کیسے لایا جارہا ہے ، ایک کیلئے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور دوسرے کیلئے سارے ہی دروازے کھول دیئے گئے ہیں اور عوام سے کہا جارہا ہے کہ آزمائے ہوئے میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کر لیا جائے، جبکہ اس الیکشن کے نام پر سلیکشن پہلے ہی ہو چکی ہے ،صرف آٹھ فروری کی شام اعلان ہو نا باقی ہے۔
اگر دیکھا جائے تواس لیے ہی انتخابی ماحول میں پہلے والی گرما گرمی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، کیو نکہ عام عوام جان چکے ہیں کہ انہیں عام انتخابات کے نام پر بہلایا جارہا ہے ، جبکہ فیصلے کہیں اور ہو چکے ہیں ، اس کے آثار بھی صاف دکھائی دیے رہے ہیں ، اس کے باوجود دنیا کو دکھانے کیلئے ایک انتخابی ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور اس ڈرامے کے جانے پہچانے کردار اپنا اپنا کردار بخوبی پر فارم کررہے ہیں

،جبکہ آزمائی سیاسی قیادت اپنے مخالف کی غلطیاں ، برائیاں اُجاگر کرکے اور اپنے ماضی کے کارنامے و منصوبوں کا تذ کرہ کر کے عوام میں ا پنے لیے راستہ ہمور کر رہے ہیں ،تاہم یہ سارے ہی عوام کے بارہا آزمائے ہوئے اور ان کے سارے دعوئے اوروعدے بھی عوام کے جانے پہچانے ہیں ،عوام جانتے ہیں کہ انہوں نے ہی ملک کو ایسے دہر اہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ یہ ہر بار ہی بڑی ہی ڈھٹائی سے بڑے بڑے دعوئے کرتے ہیں کہ ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر یں گے ، عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ، جبکہ اقتدار میں آکر سارے ہی دعوئے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ، ایک بار پھر وہی پرانے دعوئے اور وعدے دہرائے جارہے ہیں ، ایک بار پھر عوام کو بہکایا جارہا ہے ، جبکہ عوام جانتے ہیں کہ یہ سارے ہی بلند بانگ دعوئے پورے نہیں کیے جاسکتے ہیں ، کیو نکہ اس بات کی ملک کی بد حال معیشت اجازت دیتی ہے نہ ہی ان کے دعوئوں میں کوئی سچائی ہے۔
اس وقت ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور آزمائی سیاسی قیادت ملک و عوام کی زندگی میں خو شحالی لانے کے بلنگ بانگ دعوئے کررہے ہیں ، جبکہ اس سال ہی پا کستان نے ستائیس ارب ڈالر کا قرض واپس کر نا ہے ، گزشتہ برس ہی سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتادیا تھا کہ پا کستان نے آئندہ تین برسوں میں75ارب ڈالر لوٹانے ہیں ، مگریہاں قر ض لوٹانے کی بات تو بہت دور، مزید قر ض پر قرض لے کر دودھ و شہد کی نہریں بہانے کے بلنگ بانگ دعوئے کیے جارہے ہیں ،تاہم بدلتی معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے باشعور لوگ اب کسی ایسے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔
یہ بات طے ہے کہ عوام آزمائی قیادت سے نہ صرف تنگ ہیں ،بلکہ اس سے چھٹکارہ بھی چاہتے ہیں ، مگرانہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جارہا ہے نہ ہی آزادانہ حق رائے دہی کا موقع فراہم کیا جارہا ہے ، اس کے باوجود دنیا کو دکھایا جارہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات ہورہے ہیں ،یہ کیسے انتخابات ہورہے ہیں کہ جس میں عوام کی مقبول قیادت ہے نہ ہی عوام کو اظہارے رائے کی آزادی حاصل ہے ، اس انتخابی عمل کی کوئی ساکھ ہے نہ ہی اسے کوئی مانے گا ،اس کے باوجود عوام کو اس میں نہ صرف بھر پور شرکت کی کوشش کر نی چاہئے ،بلکہ اپنی آزادانہ حق رائے دہی کا حق بھی بزور ووٹ حاصل کر نا چاہئے ، پاکستانی عوام کو غلامی سے آزادی کا سفر خود ہی قربانیاںدیے کر طے کر نا ہو گا۔
عوام کیلئے آٹھ فروریً کادن ایک فیصلہ کن دن ہو گا، اس دن عوام نے اپنے حق رائے دہی کیلئے نکلنا ہے اور اپنا فیصلہ نہ صرف دینا ہے ،بلکہ اپنے فیصلے کو منوانا بھی ہے، گزشتہ چند ماہ میں بہت نا انصافیاں ہوئی ہیں، بہت مظالم بھی ڈھائے گئے ہیں، انتشار، افراتفری کا دور دورہ بھی رہاہے، اس بحرانی اور طوفانی حالات سے آٹھ فروری ہی نکال سکتی ہے،لیکن اس کیلئے ہر پا کستانی عوام کوبیلٹ بکس میں اپنا ووٹ ڈالتے وقت اپنے ضمیر کی ہی آواز سنا ہو گی اورکسی دبائو یا لالچ میں نہیں آنا ہوگا ، اگر اس باربھی کسی وجہ سے عوام نے اپنے ضمیر کی آواز مخالف ووٹ دیا تو پھر سب کا اللہ ہی حافظ ہے ،انہیں آزمائے سے کوئی نجات دلا پائے گا نہ ہی آنے والی تباہی و بر بادی سے کوئی بچا پائے گا ،کیونکہ اس کے ذمہ دارعوام خود ہی ہوں گے ،اس لیے ہی کہاجاتا ہے کہ جیسے عوام پر ویسے ہی حکمران آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں