عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں!
عام انتخابات میں دس دن رہ گئے ہیں ، مگران انتخابات پر چھائے خدشات کے بادل چھٹنے کانام ہی نہیں لے رہے ہیں ،ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں معاملات طے ہو چکے ہیں اور زیب داستان کے لئے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے، وہ صرف ڈرامے کا ایک سکرپٹ ہے، جبکہ دوسری جانب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے آصف علی زرداری موقع سے پورا فائدہ اٹھانے کی تیاری کر چکے ہیں،
اس الیکشن کے نتائج کیا نکلتے ہیں، کسی کو بھی حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں، عوام کا موڈ کچھ اور ہے ،جبکہ سیاسی جماعتیں کچھ اور ہی سمجھ رہی ہیں،اس کے ساتھ یہ لہربھی چل رہی ہے کہ میاں نواز شریف کو چوتھی باروزیر اعظم بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، مگر اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
اگر دیکھاجائے تو الیکشن کی بھٹی سے گزرے بغیر کوئی کندن سکتا ہے نہ ہی بے رنگ خاکے میں رنگ بھرے جاسکتے ہیں،میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعطم بنے کیلئے بڑی حد تک بدل چکے ہیں، انہوں نے اپنے ماضی کا بیانیہ بدلنے کے ساتھ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی بھلا دیا ہے، وہ کہتے ہیں میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے آیا ہوں،جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے جلسوں میں میاں نوازشریف کے بارے میں جو بیانیہ اختیار کررکھا ہے ، وہ اس نکتے پر ہی استوار ہے
کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن کر انتقام ہی لیں گے، وہ تحریک انصاف کے حامیوں کو پیغام دیے رہے ہیں کہ ملک کو انتقامی سیاست سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں ووٹ دیںاور وہ ہی میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے سے روک سکتے ہیں۔اس حقیقت کو وقت نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی مخالف بیانیہ سیاست میں زیادہ فائدہ دے سکتا ہے نہ ہی مقبولیت میں اضافہ کرسکتا ہے ، الٹا اس کا نقصان ہی ہوتاہے
اور سیاسی تنہائی مقدر بن جاتی ہے ،ساری سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہئے کب تک انتشار کی سیاست کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم کرتے رہیں گے ،وقت آگیا ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انتشار کی سیاست مسترد کریں اور ایک شفاف انتخابات کے ذریعے آگے بڑھیں ،، اگر اس بار عام انتخابات پر امن اور غیر جانبدارانہ ہوئے تو یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ نگران حکومت کی بھی بڑیی ناکامی ہو گی،ملک میں شفاف انتخابات کے ذریعے ہی مستحکم حکومت معرض وجود میں آ ئے گی توہی در پش مسائل سے باہر نکل پائیں گے ۔
یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ میاں نواز شر یف کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات کے بعد انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے
اور ایسارویہ اختیار نہیں کریں گے، جوکہ ماضی میں اپوزیشن اختیارکرتی رہی ہیں، تاہم انتخابات سے پہلے بھی انتقامی سیاست کا خاتمہ ہو نا چاہئے اور انتخابات کے نتیجے میں جو سیٹ اپ سامنے آئے، اسے چلنے دینا چاہئے،اس ملک میںہو نے والے مختلف تجربات نے ماسوائے بد حالی کے ملک کو کچھ بھی نہیں دیا ہے ،اگر اس بار بھی وہی پرانے تجربات دہرائے گئے تو آٹھ فروری کے انتخابات آگے لے جانے کے بجائے بہت پیچھے لے جائیں گے اور کسی نئے انتشار سے دو چار بھی کر سکتے ہیں ۔
اس وقت ملک کسی نئے انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،یہ سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ اس موقع پر دانش مندی، قومی سوچ اور جمہوری طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو منجدھار سے نکالنے کی کوشش کریں، سیاست سے ایک دوسرے کو نکالنے کی سوچ کا خاتمہ کر یں اور مل کر افہام تفہیم کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں ،تحریک انصاف کو بھی قومی دھارے سے نکالا جا سکتا ہے
نہ ہی عوام کی حمایت سے دست بردار کیا جاسکتا ہے ، یہ بہتر ہوتا کہ وہ ایک انتخابی نشان پر انتخاب لڑتی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے، اس کے آزاد امیدوار انتخابی نتائج پر اب کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اس بات کا انتخابات کے نتائج کے بعد ہی پتہ چلے گا، تاہم اس وقت الیکشن کمیشن اورنگران حکومت کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کی توجہ صر ف منصفانہ شفاف انتخابات کرانے پر ہی مرکوز رہنی چاہئے،اس موقع پر چھوٹے موٹے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں ،لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی بے قاعدگیاں پورے عمل کو مشکوک بنا دیتی ہیں، ماضی میں اس کے نتائج سب ہی بھگت چکے ہیں ،لیکن اس بار عوام کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ نہ صرف کرنے دیا جائے ، بلکہ اس عوام کے فیصلے کو مانا بھی جائے ،اس میں ہی سب کی بہتری اور اس میں ہی سب کاروشن مستقبل ہے۔