بحران سے نکلنے کیلئے بڑے فیصلے کی ضرورت !
ملک میں انتخابی گہماگہمی میں معاشی عد استحکام کا شور بھی سنائی دینے لگا ہے ، سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کی جستجو کے ساتھ یہ فکر بھی لا حق ہو گئی ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعدآئے روز بڑ ھتے معاشی بحران سے کیسے نمٹا جائے گا،سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے منشور میںمعاشی بحران کے حل تو پیش کررہی ہیں،لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس معاشی بحران سے نمٹنے کا کوئی شارٹ ٹرم پروگرام موجود ہی نہیں ہے ،اس لیے ایک مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،لیکن یہ آزمایا ناکام تجربہ کیسے د وبارہ کا میاب ہو سکتا ہے ؟
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ آزمائے لوگ ہی لائے جارہے ہیں اور ان کے ذریعے ہی بار بار ناکام تجربے دہرائے جارہے ہیں ، یہ آزمائے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ مل کر بھی ملک کو معاشی بحران سے پہلے نکال پائے ہیں نہ ہی آئندہ نکال پائیں گے ،کیو نکہ قرضوں کابوجھ در بوجھ جس طرح بڑھتا چلا جارہا ہے ، اس کے ساتھ معیشت کی بحالی انتہائی مشکل کام ہے ، جوکہ آزمائی قیادت کے بس کی بات ہے نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت ہے کہ ایک شارٹ ٹرم پروگرام کے تحت بدحالی کو خوشحال میں بدل پائیں گے ،
اس مقصد کیلئے اپنے اخراجات کم کر کے برآمدات بڑھانا ہوں گی اور برآمدات بڑھانے کیلئے بند صنعتوں کا پہیہ چلانا ہو گا ، یہ آزمائے قیادت اپنی عیاشیاں بند کر سکتے ہیں نہ ہی برآمدات بڑھانے کی اہلیت رکھتے ہیںتو پھر کیسے ملک میں خوشحالی آئے گی ؟اگر اس تناطر میں دیکھا جائے تو ملک کا معاشی بحران کئی اہم مسائل سے جڑا ہے ، ان متعلقہ مسائل کا جب تک کاخاتمہ نہیں کیا جائے گا ،اس وقت تک معاشی بحران کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا ،اس لیے عام انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی ،
،وہ نطام چلانے کیلئے مزید قر ضے لے گی ، اس کے نتیجے میں قرض دینے والے اداروں کی جانب سے نئی مزید سخت شرائط رکھی جائیں گی ،اس کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے گا اور عوام کی مشکلات مزید دو چند ہو جائیں گی ، لیکن یہاں عوام کی کوئی فکر لاحق ہے نہ ہی عوام کا کوئی پر سان حال ہے ، یہاں ہر کوئی ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے نہ صرف عوام پر قر ضوں کا بوجھ در بوجھ ڈالے جارہا ہے،بلکہ ملک کی بد حال معیشت کو مزید بد حالی کی دلدل میں دھکیلے جارہاہے ۔
یہ ملک و عوام کو بد حالی سے نکال کر خوشحالی کی جانب گامزن کر نے کے سارے دعوئے ماسوائے انتخابی مہم کے نعروں کے کچھ بھی نہیں ہیں ، یہ دعوئے پہلی بار کیے جارہے ہیں نہ آخری بار کیے جائیں گے ، یہ آزمائی سیاسی قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ ہر انتخابی مہم پرایسے ہی دعوئے اور وعدے کر کے عوام کو بہلایا اور بہکایا جاتاہے ، اس بار بھی ویسا ہی کچھ کیا جارہا ہے ،بار ہا آزمائی قیادت ایک بار پھر اقتدار میں آکر خوشحالی لانے اور عوام کی زندگیاں بدلنے کے دعوئے کررہے ہیں ،
لیکن ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، اس کے باوجود ایک آزمائی قیادت کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے جس طرح آئین و قانون پامال کیا جا رہا ہے اور جس طرح دوسری جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں،اگر اس طرح ہی اپنے لاڈلوں کو زور زبردستی جتوایا گیا اور عوام کے لاڈلوں کو ہرایا گیا تو اس کے اتنے انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے کہ جس کا ملک متحمل نہیں ہو پائے گا ۔
یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ، یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ، اس ملک کی بقاء اور سلامتی کو مقدم رکھتے ہوئے نہ صرف بڑے فیصلے کر نا ہوں گے ، بلکہ ان فیصلوں پر عملدرآ مد بھی کر نا ہو گا، اس میں سب سے پہلے آٹھ فروری کے عام انتخابی عمل کو آزادانہ منصفانہ شفاف بنانا ہے ، عام انتخابات کے انعقاد میں بہت کم وقت رہ گیا ہے ،لیکن اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ، بہت سے غلط کو کچھ درست بھی کیا جاسکتا ہے،
یہ اب اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہی ذمہ داری ہے کہ صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ آزادانہ انتخابات کو یقینی بنائیںکہ جن کے نتائج سب کے لیے ہی قابل قبول ہوں، ورنہ ملک درپیش بحرانوں کی دلدل سے نکل سکے گا نہ عوام کے مسائل کبھی حل ہو پائیںگے نہ ہی ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام آپائے گا۔